لاہور: (پروفیسر حسن عسکری کاظمی) اپنے تعارف کیلئے شکیب جلالی نے یہ بات کہی تھی:
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں
جو راستہ عام ہو جائے
یہ شعر پڑھتے ہوئے ذہن میں جدت طراز شاعر غالب کا شعر آ جاتا ہے:
ہیں اہل خرد کس روش خاص پہ نازاں
پابستگی رسم و رہ عام بہت ہے
شکیب جلالی بھی روش خاص کا خوگر تھا، خیمۂ افلاک کے نتیجے جتنی سانسیں جیا، عام ڈگر اختیار نہیں کی، اردو کے جینوئن شاعروں نے عشق و محبت، غم و اندوہ اپنے مخصوص آہنگ میں ڈھالا، میر، غالب، فانی، قابل، اجمیری، ناصر کاظمی کے ہاں داخلی اور خارجی کیف و کم کے بیان میں زندگانی رقص کرتی نظر آتی ہے، کہیں کہیں رومانویت کی حسن کاری لفظوں کے پیکر میں ڈھل جاتی ہے:
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئینے میں چوم لیا اپنے آپ کو
تعریف کیا ہو قامت دلدار کی شکیب
تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو
چوما ہے میرا نام لب سرخ سے شکیب
یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں
عرض محبت اور حسن و عشق کا تذکرہ شکیب کے ہاں باہمدگر جڑے ہوئے ملتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ حسن فطرت کی نیرنگی اپنی بہار دکھاتی ہے:
وہ عکس بدن تھا کہ چاندنی کا کنول
وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا
شکیب جلالی کی زندگی اور شاعری کے معروف ناقدین کے اسمائے گرامی ملتے ہیں، وہ علی گڑھ کے قصبہ جلالی میں یکم اکتوبر 1934ء کو پیدا ہوا، اصل نام سید حسن رضوی رکھا گیا، والد سید صغیر حسین اور دادا سید شناعت حسین پولیس میں ملازم تھے، شکیب کے دادا بدایوں میں آباد ہوگئے، والد سید صغیر حسین پیری مریدی کے چکر میں پاگل قرار دیئے گئے تھے، انہی حالات میں 1942ء میں بیوی بچوں کے ہمراہ بریلی کے ریلوے سٹیشن پہنچے اور اپنی بیوی کو ریل گاڑی کے آگے دھکا دے دیا، جس سے اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں اور وہ ہلاک ہوگئی۔ غور فرمایئے اس وقت شکیب نو سال کا بچہ تھا، ایک نو سال کے بچے کی ذہنی کیفیت میں خوف اور دہشت کا کیا عالم ہوگا؟
قیام پاکستان کے بعد شکیب اپنے ماموں اور چار بہنوں کو لے کر کراچی آ گئے، میٹرک کا امتحان پاس کیا، وہاں سے راولپنڈی چلا گیا، وہ بلا کا حساس اور خود دار تھا، مختلف جگہوں میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں، بہنوں کی کفالت بھی کرتا رہا، ذوق ادب کی تشکیل کی خاطر ادبی جریدہ ’’گونج‘‘ جاری کیا، تیرہ چودہ سال کی عمر میں تحریر میں پختگی حیرت ناک ہے لیکن کشاکش دوراں سے فرصت نہیں ملی، ماں کی بے رحم موت کا خوف اور دہشت شکیب کی زندگی اور شاعری کا ’’استعارہ‘‘ بن گئے۔
اس دوران میں خانگی ذمے داریاں بہنوں کی شادیاں کیں اور اپنی خالہ زاد ’’محدثہ‘‘ سے شادی کی، ایک بیٹا ’’عالی‘‘ اور بیٹی’’حنا‘‘ کی، پرورش، اپنے والد کے کلام کی اشاعت اور یہ سارے کام بحسن خوبی انجام دیئے، لیکن اس کے اندر کے جہان میں ایک ہیجان برپا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ روبا افروں رہا، اگر شکیب جلالی کی مہ و سال کی تحلیل نفسی کی جائے تو یاسیت اور قنوطیت کی ہمہ وقت کی بڑھتی ہوئی کیفیت میلان بن جاتی ہے، نارمل حالت میں اچانک کسی جانب نظر اٹھتی تو خوف زدگی کی ایک لہر سی اٹھتی، اسی حالت میں انہوں نے ادیب ، فاضل کا امتحان پاس کر لیا۔
ملک کے معروف ادبی جرائد ’’اوراق‘‘، ’’فنون‘‘، ’’ساقی‘‘، ’’اردو زبان‘‘ میں کلام شائع ہونے لگا، شکیب کا نام جدید غزل کے بڑے ناموں کے ساتھ آنے لگا لیکن دل میں ایک خلش یا چبھن روز افزوں رہی، احمد ندیم قاسمی، وزیر آغا نے اپنی تحریروں میں شکیب کو بے حد سراہا لیکن ذہنی توازن بگڑتا چلا گیا، ان کے دوست سیف زلفی نے لاہور کے ایک مینٹل ہسپتال میں داخل کرا دیا، ڈاکٹروں نے کچھ روز بعد ’’فٹ‘‘ قرار دیا اور اب شکیب جلالی کی خود کشی کے اندوہ ناک سانحہ کا ذکر اس کے دوست ’پرویز بزمی‘ کی زبانی سنئے۔
’’12 مئی 1966ء کا سورج طلوع ہوا، شکیب حسب معمول گھر سے نکلا، اس کے قدم غیر ارادی طور پر فیکٹری ایریا کی جانب اٹھنے لگے، ریلوے لائن کے پاس ’’مومنی‘‘ فلور مل کے سامنے دودھ دہی کی دکان تھی، کڑاہی میں گرم دودھ دیکھ کر دکاندار سے دودھ کی فرمائش کی، اچانک اس کی نظر قریب سے گزرتی ہوئے ریلوے لائن کی طرف کھیچنے لگی، قریب جا کر وہ پٹڑی کو دیکھنے لگا، اس نے جھک کر پٹڑی کو سونگھا، خوشبو کی نشیلی کیفیت سے آنکھیں بند ہوگئیں، اسے ایسے لگا، پڑی کی رنگت دودھیا ہوگئی۔
اچانک ایک جھٹکے ساتھ اس کی آنکھ کھلی اور سرخ ہو رہی تھی، وہ گھبرا گیا اس کا جسم پانی کی طرح بہنے لگا، خوف کے سیاہ لمبے ہاتھ۔ ایسے میں ریل کی کوک سنائی دی، انجن ایک ہیولے کی طرح ایک نسوانی صورت اختیار کر گیا جیسے اس کی شفیق ماں کا ہاتھ اسے بلا رہا ہے، اس کے قدم پٹڑی کی جانب اٹھنے لگے، وہ جنم جنم کا پیاسا خوف کی فصیل وقت کے حدود کو پھلانگ کر نکل چکا تھا، اس کی دونوں ٹانگیں کٹ چکی تھیں‘‘، جدید اردو غزل کا نمائندہ شکیب جلالی ہم سے روٹھ گیا، یہ شرف سرگودھا کے حصے میں آیا، وہیں وہ جا دفن ہوا، شکیب جلالی کے انتہائی قریبی دوست افضل منہاس نے بے ساختہ کہا:
آج سرگودھا کی مٹی افضل ہو گئی
اس کے دامن میں شکیب ایسا سخن سو گیا
شکیب جلالی کے رنگ شعر میں اس کے عصر شعراء میں عدیم ہاشمی، خالد امجد، نجیب احمد، افضل منہاس اور نصرت چوہدری شامل ہیں، شکیب سب سے الگ نظر آتا ہے:
ہر گام پہ جگنو جو چمکتا ہے شکیب
ہم اس کے سوا منزل جادہ نہیں رکھتے
شکیب جلالی کی غزل میں عام لفظیات نازک قرینے سے باہم جڑے ہیں، اس میں لفظ کا روایتی پن ذرا بھی پیدا نہیں ہوتا، جدیدیت کا یہ روایتی آہنگ نئی تمثال گری کو جنم دیتا ہے، کہنہ عشق شاعر محبوب خزاں نے کہا تھا: ’’بات یہ ہے کہ آدمی شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا‘‘۔
شعر کے بارے میں یہ ایک سرسری رائے ہے، اصل بات وہی ہے جو حسرت موہانی نے کہی تھی:
شعر دراصل ہے وہی حسرت
سنتے ہی جو دل میں اتر جائے
راقم یہاں ایک اور پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے، تاریخ عالم کچھ اور بتاتی ہے، شعر کہنے والوں کے اندر کا جہان بہت دکھی ہوتا ہے، شدید حسیت اور ابنائے روزگار کے ستم انہیں جینے نہیں دیتے، انگریزی کا شاعر Keats بتیس سال جی سکا، قابل اجمیری کو باطنی کرب نے تیس سال جینے دیا۔ وہ یہ کہتا ہوا چلا گیا:
گزاری نزع کے عالم میں تو نے زندگی قابل
مرے شعروں میں لیکن زندگانی رقص کرتی ہے
شکیب جلالی اپنا ڈکشن مقروں اشیاء سے بُنتا ہے، وہ ارد گرد کی محسوس اشیاء سے مواد حسن ترتیب جوڑتا ہے:
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا۔
سسکیاں بھر کے اویس روتی تھی
فسانہ جگر لخت لخت ایسا تھا
ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا
کہاں کی سیر نہ کی تو سن تخیل پر
ہمیں تو ملک کس سلیماں کے تخت ایسا تھا
یہ ابر کا ٹکرا کہاں کہاں برسے
تمام دشت پیاسا دکھائی دیتا ہے
جیسا کہ ذکر ہوا شکیب کی غزل میں لفطیات ایک نازک قرینے سے باہم جڑتے ہیں اور ایک جہان معنی آباد ہو جاتا ہے، راقم کے نزدیک یہ شے کسی دوسرے جدت فراز شاعر کے ہاں نہیں ملتی بقول شاعر:۔
چار تنکوں کو سلیقے سے اگر ترتیب دیں
بجلیوں کو بھی طواف آشیاں کرنا پڑتا ہے
شکیب جلالی کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ وہ وصف کیا ہے جو اسے دوسرے شعراء کے مقابلے میں قبولیت کا موجب بناتا ہے، کسی کے ہاں استعارے جاندار ہوتے ہیں، کہیں تخلیقی اور تخیلی سطح خود کو منوا لیتی ہے، لیکن ممتاز نقاد شمس الرحمن فاروقی کا انداز نظر سب سے منفرد ہے، وہ شکیب جلالی کے شعر کا تجزیاتی مطالعہ لفظوں کے صوتی، لسانی اور سماجی پہلوؤں کی معیت میں کرتے ہیں، خلاقانہ روایت کا احساس قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے،
یہاں پیکر کے تمام اجزاء اپنی جگہ معنی خیزی کا تقاضا کرتے ہیں، ’’آکر گرا‘‘، ’’ پرندہ‘‘، ’’لہو میں تر‘‘، ’’ تصویر‘‘، ’’چھوڑ گیا‘‘، ’’چٹان پر‘‘ آکر گرا میں پرواز، رفتار، بے قابو رفتار کا تاثر بھی، لیکن چٹان کا لفظ قوت سامعہ کو بھی متحرک کرتا ہے، سخت چٹان پر پرندہ گرا ہوگا تو آواز بھی آئی ہو گی گویا ہلکے سے گولی چلی ہو۔
اک سانس کی طناب جو ٹوٹی ہے اے شکیب
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے
آ کر گرا تھا ایک پرندہ چٹان پر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے لہو سے تر
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈبتے بھی دیکھ
پروفیسر حسن عسکری کاظمی شاعر، ادیب ، نقاد اور سفر نامہ نگار ہیں۔