اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) جہاں ایک جانب سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے صاحبزادے کے مؤقف سے ہٹ کر یہ بیان جاری کیا ہے کہ انہیں الیکشن کمیشن پر پورا اعتماد ہے کہ وہ شفاف الیکشن کروائے گا وہیں مسلم لیگ ن کی قیادت یہ تاثر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی کہ انہیں سسٹم کی آشیر باد حاصل ہے۔
21 اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر ایئرپورٹ پر ملنے والا پروٹوکول، لاہور پہنچنے پر اعلیٰ پولیس افسروں کی جانب سے سیلوٹ، عدالتوں میں پراسیکیوشن کے انتہائی نرم رویے اور اس کے نتیجے میں ملنے والا ریلیف تو یہ تاثر قائم کرنے کیلئے کافی تھا مگر لیگی قیادت کے ایک کے بعد ایک بیانات اور اعتماد اس تاثر کو مزید تقویت دے رہے ہیں جس کے نقصان دہ اثرات مسلم لیگ ن کو ہی بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
ن لیگ اگر واقعی فرورری 2024ء میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو انتخابات سے قبل خود ہی لیول پلیئنگ فیلڈ کے سوالات کا جواز فراہم کرکے آنے والی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر رہی ہے، سیاسی امور پر نظر رکھنے والے کچھ حلقے سمجھتے ہیں کہ ن لیگ انتخابات جیتنے کیلئے جس پراعتماد لہجے میں بات کر رہی ہے ان کیلئے انتخابات میں اترنا اتنا آسان بھی نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔
ایسا تاثر دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ انتظامیہ اور ملک کے الیکٹ ایبلز کو پیغام چلا جائے کہ آئندہ حکومت کس کی ہو گی اور اس وقت کی ہم خیال جماعتوں کو اتحاد کی جانب راغب کرنے میں آسانی ہو، یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی غیر مقبول حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی جماعت بڑی آسانی سے مختلف صوبوں میں الیکٹ ایبلز کو اپنی جماعت میں شامل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے اور سیاسی اتحاد قائم کر رہی ہے۔
ن لیگ کو انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند 4 ہزار سے زائد امیدواروں کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، مسلم لیگ ن جلد ہی پارلیمانی بورڈ تشکیل دے کر موزوں امیدواروں کا چناؤ کرے گی، یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے کہ ن لیگ کا پراعتماد لہجہ ابھی عوامی جلسوں کی صورت میں نہیں بلکہ پریس کانفرنسز اور میڈیا ٹاک شوز کی حد تک ہے۔
21 اکتوبر کے بڑے جلسے کے بعد ن لیگ کوئی بڑا اکٹھ نہیں کر سکی، عوام میں جانے کیلئے اگر کوئی جماعت سب سے زیادہ متحرک نظر آرہی ہے تو وہ بلاول بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ہے، بلاول اپنی جماعت کو خود لیڈ کرتے ہوئے ماضی میں کئی باریاں لینے والے سیاستدانوں کو عمر کا طعنہ دے رہے ہیں۔
بلاول جہاں میاں نواز شریف کو نام لیے بغیر کہتے ہیں کہ پرانے سیاستدانوں سے جان چھڑوائی جائے وہیں وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر مؤثر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن سے پہلے رزلٹ طے کرنا ہے تو پھر ایسے انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں ہے، سب کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے، 30 برس سے سیاست کرنے والے ایک الیکشن کی خاطر ملک کو داؤ پر نہ لگائیں۔
بلاول لیگی قیادت کے ان بیانات کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں کہ بات ہو چکی ہے، میاں نواز شریف ہی آئندہ وزیر اعظم ہوں گے، شازیہ مری نے گزشتہ روز کہا کہ ہماری بات ہوگئی ہے جیسے بیانات ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، بلاول بھٹو کے جارحانہ رویے پر ن لیگ محتاط پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور ن لیگی قیادت کی جانب سے بلاول اور ان کی جماعت کے خلاف سخت مؤقف نہیں اپنایا جا رہا۔
مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ بلاول کو اس انداز سے جواب دینا نہیں چاہتے، ہماری پالیسی تلخیاں کم کرنا ہے مگر تلخیاں کم کرنے کا یہ دعویٰ صرف مخصوص جماعتوں کی حد تک نظر آتا ہے جو شاید ابھی سیاسی حریف ہونے کا دکھاوا کر رہی ہیں اور 8 فروری کے انتخابات کے بعد حکومتی بنچز پر مل بیٹھنے والی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اپنے غلط سیاسی فیصلوں کے باعث سنگین کیسز کا سامنا کر رہی ہے جبکہ لیگی قیادت کو ایک کے بعد ایک کیس میں ریلیف مل رہا ہے، مسلم لیگ ن کا بیانیہ یہ ہے کہ یہ کیسز تو ان کے خلاف سیاسی انتقام کیلئے بنائے گئے تھے اب وہ ان کیسز میں میرٹ پر بری ہو رہے ہیں۔
اس بیانیے کا فائدہ یا نقصان مسلم لیگ ن کیلئے اپنی جگہ مگر یہ ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، وطن عزیز گزشتہ دو برسوں سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جو معاشی عدم استحکام کی بھی ایک بڑی وجہ ہے، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو یہ نصیحت کرتی تو سنائی دیتی ہیں کہ ملک میں شفاف انتخابات ہی اس غیر یقینی صورتحال اور عدم استحکام کا خاتمہ کر سکتے ہیں مگر کوئی بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتا۔
سیاسی جماعتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا بھی کڑا امتحان ہے کہ وہ ایسا الیکشن کروانے میں کامیاب ہو جس پر سب جماعتوں کا اعتماد ہو، اس سے قبل 2013ء کے انتخابات کو آصف علی زرداری کی جانب سے آر اوز یعنی ریٹرننگ افسران کا الیکشن جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے 35 پنکچر والا الیکشن کہا گیا جو کہ ثابت نہ ہو سکا۔
ن لیگ کی حکومت بننے کے چند ماہ بعد الیکشن کے خلاف عدالتوں اور سڑکوں پر محاذ کھل گیا اور ملک کو معاشی اور سفارتی سطح پر بڑا نقصان اٹھانا پڑا، اس کے بعد 2018ء کے عام انتخابات کو آر ٹی ایس کا الیکشن کہا گیا اور ملک میں سیاسی استحکام نہ آسکا۔
ایسے میں آصف علی زرداری کا یہ بیان تو خوش آئند ہے کہ انہیں شفاف الیکشن کروانے کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان پر اعتماد ہے مگر بلاول سمیت ان کی جماعت کی دیگر قیادت لیول پلیئنگ فیلڈ پر مسلسل سوالات اٹھا رہی ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے حوالے سے ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں قابل اعتماد اور شفاف انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جاسکے ورنہ ن لیگ اگر میرٹ پر الیکشن جیت بھی جائے تو حکومت میں آنے کے بعد اس کا اپنا بیانیہ ہی اس کیلئے درد سر بن جائے گا کہ ساڈی گل ہو گئی اے۔