لاہور: ( محمد اشفاق ) جسٹس ملک شہزاد احمد خان بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ 8 مارچ کو حلف اٹھائیں گے، وکلا کی ہڑتالوں سمیت سائلین کو درپیش مسائل ان کیلئے بڑا چیلنج ہوں گے جبکہ وکلا مثبت پالیسیز کیلئے پُر امید ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے سیینر ترین جج جسٹس ملک شہزاد احمد خان 8 مارچ 2024 کو لاہور ہائیکورٹ کے 52 ویں چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے متعدد تاریخی فیصلے جاری کیے، جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا شمار پاکستان کی عدلیہ میں طاقتور اور دلیر ججز میں ہوتا ہے جنہوں نے آئین اور قانون کے مطابق بلا خوف و خطر فیصلے جاری کیے۔
پنجاب میں عدلیہ کے نئے دور آغاز 8 مارچ کو ہوگا جب جسٹس ملک شہزاد احمد خان لاہور ہائیکورٹ کے 52 ویں چیف جسٹس کے طور پر عہدہ کا حلف اٹھائیں گے۔
اس حوالے سے چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تقرر کرنے کی منظوری دیدی گئی۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان کون؟ وکلا کی انتخابی سیاست میں کیا کردار ادا کیا؟
جسٹس ملک شہزاد احمد خان 15 مارچ 1963 کو پنڈی گھیب، ضلع اٹک میں پیدا ہوئے، انہوں نے گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن کی، اس کے بعد 1989 میں یونیورسٹی لاء کالج، پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 1990 میں راولپنڈی میں قانون کی پریکٹس شروع کی۔
وہ 1993 میں ہائیکورٹ اور 2004 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بن گئے، 21 سال بطور وکیل پریکٹس کی اور بڑی تعداد میں مقدمات لڑے۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان 2004 میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے سیکرٹری جنرل اور 2009 میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے صدر منتخب ہوئے،12 مئی 2011 کو لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج بنے اور 11 مئی 2013 کو کنفرم ہوئے۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان بطور چیف جسٹس 15 مارچ 2025 کو عہدہ سے ریٹائر ہوں گے، اس طرح وہ 12 ماہ 6 دن تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان کو درپیش چیلنجز
جسٹس ملک شہزاد احمد خان جب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا عہدہ سنبھالیں گے تو ان کے سامنے پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں 13 لاکھ اور لاہور ہائیکورٹ میں 2 لاکھ زیر التوا کیسز کو بروقت نمٹانے کا چیلنج ہوگا یعنی 15 لاکھ زیر التوا کیسز کو بروقت نمٹانا اور اس حوالے سے نئی پالیسیز مرتب کرنا ہوں گی۔
جب لاہور ہائیکورٹ میں 8 مارچ کو ججز کی تعداد 38 رہ جائیگی اور مجموعی طور پر 22 ججز کی خالی آسامیوں کو پُر کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ گزشتہ اڑھائی برس سے لاہور ہائیکورٹ میں ایک جج کی بھی تقرری نہ ہونے سے انصاف کی بروقت فراہمی بری طرح متاثر ہوئی۔
لاہور میں عدالتوں کی تقسیم سے متعلق وکلا گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ہڑتال پر ہیں جبکہ لاہور میں کیسز کی سماعت بھی نہ ہونے سے سائلین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ وہ چیلنجز ہیں جن کو نمٹانے کے لیے جسٹس ملک شہزاد احمد خان بطور چیف جسٹس اپنی پالیسیز از سر نو تشکیل دیں گے اور اس حوالے سے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان تمام مسائل کا مثبت انداز میں کوئی حل نکالیں گے۔
اس حوالے سے قانونی ماہر میاں داؤد کا کہنا ہے کہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کو فوجداری قوانین پر عبور حاصل ہے اور ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
قانونی ماہر اور بیرسٹر امرت کا کہنا ہے کہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نڈر جج ہیں اور ان کی اولین ترجیحات میں ان تمام چیلنجز کو نمٹانے کے لیے پلان بھی مرتب کرلیا گیا ہے۔
دوسری جانب وکلا تنظیموں نے بھی جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تقرری کو خوش آئند قرار دیا ہے۔