لاہور: (خاور نیازی) سخاوت، وہ وصف ہے جو ہمارے اسلاف کا وصف ہوا کرتا تھا اور کیوں نہ ہوتا، ہمارے دین، دینِ اسلام نے بھی ہمیں صدقہ، خیرات اور سخاوت کا درس دیا ہے، دراصل غریبوں، محتاجوں، یتیموں اور لاچاروں کی مدد معاونت اور حاجت روائی دین اسلام کا بنیادی درس ہے، بالفاظ دیگر ضرورت مندوں کی حاجت روائی اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کا سب سے موثر ذریعہ بھی ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مغرب کے امیر افراد اپنی دولت کا بیشتر حصہ فلاحی کاموں اور نادار لوگوں کی مدد میں صرف کرتے ہیں جس کیلئے وہاں کی ریاستیں انہیں ٹیکس میں چھوٹ دیتی ہیں، اگرچہ پاکستان میں بھی ایسا ہی نظام ہے کہ امیر افراد اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ ٹرسٹ بنا کر اس میں فلاحی کاموں کے نام پر خرچ کرتے ہیں لیکن عام طور پر عملاً اس کا بہت کم حصہ خرچ کیا جاتا ہے جبکہ کاغذوں میں بڑی رقم ظاہر کر کے حکومت سے ٹیکس کی چھوٹ لے لی جاتی ہے۔
’’دنیا کے سخی ترین افراد‘‘ کی سال 2022ء کی جو فہرست جاری ہوئی اس کے مطابق امریکہ کے بل گیٹس پہلے نمبر پر ہیں جو اپنی آمدن میں سے 27 ارب ڈالر فلاحی کاموں پر خرچ کر چکے ہیں، امریکہ ہی کے وارن بفٹ 21.5 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر جبکہ جارج سورس اپنی آمدن کا 8 ارب ڈالر فلاحی کاموں میں خرچ کر چکے ہیں۔
اسی سلسلے کی اکنامک سروے آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے سخی ترین 144 ممالک کی ’’ورلڈ گیونگ انڈیکس‘‘ (فلاحی کاموں کیلئے دی گئی رقوم) رپورٹ میں پاکستان کا نمبر 91 واں ہے جبکہ مسلم ملک انڈونیشیا پہلے نمبر پر ہے، ماہرین اس کی ایک وجہ وہاں کے عوام کی زکوٰۃ کی منصفانہ ادائیگی کو قرار دیتے ہیں، اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے بحیثیت مسلمان اپنے دین اور اسلاف کے احکامات کو کیوں پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے اغیار اس نیکی کے کام میں ہم مسلمانوں سے بہت آگے جا چکے ہیں۔
دنیا بھر میں رمضان کے مہینے میں بیشتر ممالک میں صاحب ثروت افراد اور فلاحی ادارے غریب اور نادار افراد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے صدقہ، خیرات، زکوٰۃ اور فطرانہ کی مد میں متحرک ہو جاتے ہیں، اُمت مسلمہ کے نادار اور کم پہلو افراد کی کفالت اور ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہر ملک میں کچھ مقامی روایات بھی رائج ہیں۔
ان میں سلطنت عثمانیہ کے دور سے ترکی میں رائج دو مقامی روایات ’’ذمیم دفتری‘‘ اور ’’صدقہ تاشلری‘‘ آج بھی قائم ہیں، ’’ذمیم دفتری‘‘ بنیادی طور گلی، محلے کی پرچون دکانوں پر سودا سلف ادھار لینے والوں کے ان کھاتوں کو کہتے ہیں جو وہ پورا ماہ لیتے رہتے ہیں اور پھر رقم ہاتھ آنے کے بعد اس کی ادائیگی کر دیتے ہیں۔
ادھار سودا لینے کی یہ روایت زمانہ قدیم میں ترکی سمیت بیشتر ملکوں میں رائج ہوا کرتی تھی، ترکی میں اکثر ماہ رمضان میں صاحب استطاعت افراد گلی محلوں اور بازاروں کی دکانوں پر چپکے سے ایسے گھرانوں کے واجبات ادا کر دیا کرتے تھے جو مالی مشکلات کے باعث قرض لوٹانے کے لائق نہیں ہوتے تھے، اس روایت کو ترکی کی مقامی زبان میں ’’ذمیم دفتری‘‘ کہا جاتا تھا۔
اسی موضوع پر ’’جرنل آف مسلم فلنتھراپی اینڈ سول سوسائٹی‘‘ میں سماجی علوم کی ایک ماہرہ دملہ اسک لکھتی ہیں ’’عثمانی دور کے مالدار افراد اپنی شناخت خفیہ رکھتے، بھیس بدل کر ان پرچون کی دکانوں پر جاتے اور قرض لینے والوں کے نام معلوم کئے بغیر ان کی یکمشت ادائیگی کر دیتے تھے، اس طرح قرض کی ادائیگی کی یہ روایت پرچون کی دکانوں سے خاص تھی کیونکہ ترکی میں صرف یہیں سے ادھار پر سامان کی خریداری کا رواج تھا اور ابھی تک یہ روایت قائم ہے‘‘۔
ترکی میں ذمیم دفتری کی روایت اگرچہ ابھی بھی برقرار ہے، البتہ وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کے مقابلے میں اس میں کچھ تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں مثلاً وہاں اس روایت میں اب فلاحی اور کاروباری ادارے بھی شامل ہوگئے ہیں۔
ایک ترک اخبار ’’صباح نیوز‘‘ کے مطابق مشرقی صوبے ایلازی میں مقامی متمول حضرات ادھار لینے والوں کی خفیہ معلومات حاصل کرنے کیلئے ’’خفیہ پیغام رساں‘‘ کو بھیجتے ہیں جو معلومات حاصل کرنے کے بعد رقم کی ادائیگی کر دیا کرتے ہیں اور یوں قرض لینے اور دینے والے دونوں کی شناخت کسی کو معلوم نہیں ہو پاتی۔
دملہ اسک لکھتی ہیں ’’ذمیم دفتری‘‘ کے ساتھ ساتھ عثمانی دور کی ایک اور خوبصورت روایت ’’صدقہ تاشلری‘‘ کے نام سے ہوا کرتی تھی (جس کے لفظی معنی ’’صدقہ کا پتھر‘‘ ہیں)، عثمانی دور میں صدقہ اور غریبوں کی امداد کیلئے یہ طریقہ عام ہونے کی بنیادی وجہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن میں گمنامی اور خاموشی سے دوسروں کی مدد کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
اگرچہ یہ روایت اب لگ بھگ ختم ہو چکی ہے تاہم عثمانی دور میں استنبول سمیت مختلف شہروں میں پتھروں کے اونچے اونچے ستون نصب کئے جاتے تھے جن کی اوٹ میں مالدار اور متمول لوگ اپنے صدقات اور عطیات وغیرہ رکھ جایا کرتے تھے جہاں سے ضرورت مند افراد یہ عطیات اپنی ضرورتیں پورا کرنے کیلئے لے جایا کرتے تھے۔
تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ صرف استنبول میں ایسے 160 ستون تھے جن میں اب بہت کم نظر آتے ہیں، سلطنت عثمانیہ میں شامل رہنے والے علاقوں یروشلم، تیونس اور مقدونیہ کے شہر اوخرید میں بھی ایسے ستونوں کا سراغ ملتا ہے۔
بعض تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ پتھر کے یہ ستون عام طور پر اتنے بلند بنائے گئے ہوتے تھے یا ایسے مقام پر بنائے جاتے تھے کہ اس کا اوپر کا حصہ بآسانی نظر نہ آئے، اس کا بنیادی مقصد رقم لینے یا رکھنے والے کی راز داری یا عزت نفس کی پاسداری کرنا ہوتا تھا۔
خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔