لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) اسلام نے رہبانیت اختیار کرنے یا تارک الدنیا ہونے کو پسند نہیں کیا بلکہ دنیاوی امور کے ساتھ ساتھ دینی امور کو سرانجام دینے کا حکم دیا ہے۔
اس کا نعم البدل اعتکاف کی صورت میں عطا فرمایا جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے، اعتکاف مسنون و افضل عبادت ہے، اسی لیے حضور نبی کریمﷺ ہر سال اعتکاف کرتے تھے، اعتکاف کے بہت سارے دینی و روحانی فوائد و ثمرات ہیں، جو معتکف کو پورا سال نصیب ہوتے ہیں۔
اعتکاف کا لغوی معنی: اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا‘‘ وغیرہ کے ہیں (ابن منظور، لسان العرب، 9 : 255)، اعتکاف کا شرعی معنی یہ ہے کہ (رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے) مسجد میں اعتکاف کی نیت سے رکنا اور ٹھہرنا، اس پر تمام امت متفق ہے کہ اعتکاف افضل عبادات میں سے ہے۔
اعتکاف قرآن مجید کی روشنی میں: اعتکاف کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ سے ملتا ہے ’’اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک (صاف) کر دو‘‘ (البقرہ: 125)، اعتکاف والوں کو قرآن مجید میں ان الفاظ سے ارشاد فرمایا: ’’عورتوں سے مباشرت نہ کرو، جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کئے ہوئے ہو‘‘ (البقرہ:187)۔
اعتکاف احادیث مبارکہ کی روشنی میں: اعتکاف کا ذکر احادیث مبارکہ میں بھی ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف نبی کریمﷺ کی سنت ہے، اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے،نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپﷺ کا وصال ہوگیا، پھر آپﷺ کے بعد آپﷺ کی ازواج مطہرات (بیویاں) بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ (صحیح مسلم: 1172)۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’وہ (معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اْسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں‘‘( ابن ماجہ: 2178)۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کی رضا کیلئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے، ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے، (طبرانی: 7326، بیہقی: 3965)، حضرت علی (زین العابدین) بن حسینؓ اپنے والد امام حسینؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔ (بیہقی، شعب الایمان : 3966)
اعتکاف کی شرائط: اعتکاف کیلئے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے جن کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ہوگا، علامہ علاؤالدین کاسانیؒ لکھتے ہیں کہ: (1) مسلمان ہونا، (2) عقلمند ہونا (دیوانہ شخص احکامِ اسلام کامکلف نہیں ہوتا)، (3)جنابت، حیض و نفاس سے پاک ہونا، (4) اعتکاف کی نیت کرے اس کیلئے کہ بغیر نیت کے عبادت صحیح نہیں ہوتی۔
(5)سنت اعتکاف کیلئے معتکف کا روزہ دار ہونا شرط ہے، (6)مرد معتکف کیلئے اعتکاف کیلئے مسجد ہونا شرط ہے اور خواتین اپنے گھر میں اعتکاف کریں گی، مسجد میں اعتکاف نہیں کریں گی، اپنے گھرکی مسجد میں عورت کا اعتکاف محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنے سے افضل ہے اور اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف بڑی مسجد میں اعتکاف کرنے سے افضل ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الاعتکاف، ج2، ص 108۔103)
اعتکاف کیلئے دوسری شرط یہ ہے کہ معتکف 20 رمضان کی شام غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کے اندر پہنچ جائے۔
علامہ ابو الحسن سندھی لکھتے ہیں: ’’نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اوّل وقت جس میں معتکف اعتکاف گاہ میں داخل ہوتا ہے وہ سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر قبل ہے اور اسی بات پر آئمہ اربعہ اور اہل علم کے ایک طبقہ کا اتفاق ہے، کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے اور دس کا شمار راتوں کی گنتی کے اعتبار سے کیا ہے، پس اس میں (عشرہ اخیرہ کی) پہلی رات بھی شامل ہے ورنہ یہ عدد بالکل پورا ہی نہیں ہوتا۔ (حاشیہ علی السنن النسائی، ج2، ص44)
اعتکاف کے فوائد: (1) اعتکاف کرنے والا گویا اپنے تمام بدن اور تمام وقت کو خدا کی عبادت کیلئے وقف کر دیتا ہے، (2) دنیا کے جھگڑوں سے محفوظ رہتا ہے، (3) اعتکاف کی حالت میں اسے ہر وقت نماز کا ثواب ملتا ہے کیونکہ اعتکاف معتکف ہر وقت نماز اور جماعت کے انتظار اور اشتیاق میں بیٹھا رہتا ہے، (4) اعتکاف کی حالت میں معتکف فرشتوں کی مشابہت پیدا کرتا ہے کہ ان کی طرح ہر وقت عبادت اور تسبیح و تقدیس میں رہتا ہے، (5) مسجد چونکہ خدا تعالیٰ کا گھر ہے اس لئے حالت اعتکاف میں معتکف خدا تعالیٰ کا پڑوسی بلکہ اس کے گھرکا مہمان ہوتا ہے۔
اعتکاف کی اقسام: فقہی اعتبار سے اعتکاف کی تین اقسام ہیں۔ واجب ’’منت کا اعتکاف‘‘: اعتکاف کی نذر مانی یعنی زبان سے کہا میرا فلاں کام ہوگا تو میں اللہ کیلئے فلاں دن یا اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا، تو ایسی صورت میں کام ہو جانے پر مقررہ دنوں کا اعتکاف واجب ہوگا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اپنی نذروں کو پورا کیا کرو (الحج:29)۔
حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے نذر مانی تھی کہ ایک رات میں مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنی نذر پوری کرو‘‘ (صحیح بخاری)، منت کے اعتکاف میں روزہ شرط ہے، یہاں تک کہ اگر ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی اور یہ کہا کہ روزہ نہ رکھے گا جب بھی روزہ رکھنا واجب ہے اور اگر رات کے اعتکاف کی منت مانی تو یہ منت صحیح نہیں کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا اور اگر یوں کہا کہ ایک دن رات کا مجھ پر اعتکاف ہے تو منت صحیح ہے۔ (الدرالمختار، کتاب الصوم، ج3، ص 496)
سنت اعتکاف: رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت ہے، حضورﷺ ہمیشہ مدینہ منورہ میں ہر سال رمضان المبارک میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اسے فقہی اعتبار سے سنت مؤکدہ علی الکفایہ کہا جاتا ہے، یعنی پورے شہر میں کسی ایک نے کر لیا تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو سبھی گناہ گار ہوں گے، ان دنوں کا روزہ رکھنا بھی معتکف کیلئے شرط ہے، اگر کسی وجہ سے روزہ ٹوٹ گیا تو روزے کے علاوہ اعتکاف کی بھی قضاء لازم ہوگی (الدرالمختار، کتاب الصوم،ج3، ص494)۔
مستحب / نفلی اعتکاف: نذر واجب اور سنت مؤکدہ کی شرائط سے ہٹ کر جو اعتکاف کیا جائے وہ نفلی اعتکاف کہلاتا ہے، اس کیلئے روزہ کی شرط اور وقت کی کوئی قید نہیں ہے، جب بھی مسجد میں داخل ہوں اعتکاف کی نیت کر لیجئے، اعتکاف کا ثواب ملتا رہے گا(فتاوی ہندیہ،کتاب الصوم، ج1، ص211)۔
اعتکاف کو توڑنے والے امور: (1) معتکف کا شرعی و طبعی عذر کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا (شرعی عذر سے مراد غسلِ واجب یا وضو کیلئے مسجد سے نکلنا اور طبعی عذر سے مراد قضائے حاجت کیلئے مسجد سے نکلنا)۔ (2) حالتِ اعتکاف میں مباشرت کرنا۔ (3) عورت اعتکاف میں ہو تو حیض و نفاس کا جاری ہو جانا۔ (4) اگر مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا تو جمعہ پڑھنے کیلئے دوسری مسجد میں جانا عذرِ شرعی ہے، اس کیلئے اذان جمعہ کے بعد نکلے۔
(5) کسی وقت کوئی حادثہ ہو جائے تو جان و مال بچانے کیلئے مسجد سے نکلنا جائز ہے۔ (6) مریض کی عیادت اور نمازِ جنازہ میں شرکت کیلئے اگر مسجد سے باہر گیا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔ (7) معتکف کو بے ہوشی یا جنون طاری ہوا اور اتنا طول پکڑ گیا کہ روزہ نہ ہو سکے تو اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے اور قضا واجب ہے۔ (8) مرض کے علاج کیلئے مسجد سے نکلے تو اعتکاف فاسد ہوگیا۔ (9) اعتکاف کیلئے روزہ شرط ہے، اس لئے روزہ توڑنے سے اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عُذر، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
(10) اعتکاف واجب میں معتکف کو مسجد سے بغیر عذر کے نکلنا حرام ہے اگر نکلا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اگرچہ بھول کر ہی نکلا ہو (فتاویٰ ہندیہ، ج1، ص211)، (11) معتکف نے حرام مال یا نشہ کی چیز رات میں کھائی تو اعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔ (فتاویٰ ہندیہ، ج1، ص213) مگر اس حرام کام کا گناہ ہوا توبہ کرے۔ (12) معتکف نے دن میں بھول کر کھا لیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا، گالم گلوچ یا جھگڑا کرنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا مگر بے نور و بے برکت ہوتا ہے (فتاویٰ ہندیہ، کتاب الصوم، ج1، ص213)۔
(13) اعتکاف بیٹھنے کیلئے خواتین شرعی عذر (حیض) روکنے کیلئے ٹیبلٹ یا انجکشن استعمال کرنا چاہیں تو غروبِ آفتاب سے لے کر اذانِ فجر سے قبل تک ٹیبلٹ لے سکتی یا انجکشن لگوا سکتی ہیں۔ لیکن اگر انجکشن لگوانے یا گولیاں کھانے کے باوجود کسی وقت عذرِ شرعی لاحق ہوجائے، چاہے وہ تھوڑی دیر کے لیے ہی ہو، تو مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(15) رمضان المبارک میں معتکف یا معتکفہ (مرد یا عورت) کا کسی عذر کی وجہ سے مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے، مثلًا ضرورت سے زائد اعتکاف گاہ سے باہر رہے یا معتکفہ (عورت) کو حیض آ جائے یا نفاس (بچے کی پیدائش) ہو جائے یا کوئی اور بیماری یا تکلیف لاحق ہو جائے تو جتنے دن کا اعتکاف رہ جائے اور رمضان المبارک کے روزے بھی اتنے ہی ہوں تو عید کے بعد جب رمضان کے روزوں کی قضا کرے تو اعتکاف کی بھی قضا کر لے۔
اعتکاف کے مکروہات: (1) بالکل خاموشی اختیار کرنا کہ ذکر و نعت اور دعوت و تبلیغ کی بجائے خاموش رہنے کو عبادت سمجھا تو یہ مکروہ تحریمی ہے۔ اگر بری باتوں سے خاموش رہا تو وہ اعلیٰ درجے کی چیز ہے۔ (2) مال و اسباب مسجد میں لا کر بغرضِ تجارت بیچنا یا خریدنا۔ (3) لڑائی جھگڑا یا بیہودہ باتیں کرنا۔
اعتکاف کا مقصد: شیخ ابن رجب لکھتے ہیں: ’’معتکف اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے ذکر و یاد کیلئے پابند کر لیتا ہے اپنی ذات کو ہر اس عمل سے الگ کر لیتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے سے مشغول کر دے، وہ دل اور جسم دونوں کو اپنے رب تعالیٰ کے قرب کے ذرائع کیلئے اس طرح پابند کر لیتا ہے کہ اب اس کا مقصود و منزل اللہ اور اس کی رضا کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا‘‘۔
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 آرٹیکلز بھی شائع ہو چکے ہیں۔