لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) روزہ کا شرعی معنی یہ ہے کہ جو شخص روزہ رکھنے کا اہل ہو وہ طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک عبادت کی نیت سے کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات کو ترک کر دے (فتاویٰ عالمگیری، ج1، ص 194)۔
علامہ علاؤ الدین حصکفیؒ نے لکھا ہے کہ روزہ کی اہلیت کیلئے مسلمان اور حیض و نفاس سے پاک ہونا ضروری ہے، عقل، بلوغ اور صحت روزے کی اہلیت کیلئے شرط نہیں، کیونکہ بچہ، مجنون اور بیمار کا روزہ بھی صحیح ہے (درمختار علی ہامش ردالمحتار، ج2، ص 110)، روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں، صوم کا لغوی معنی رکنے کے ہیں، شرع کی رو سے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رک جانے کا نام روزہ ہے۔
وہ اسباب جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا
علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی لکھتے ہیں : اگر روزہ دار بھولے سے کھا یا پی لے یا جماع کرے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، اگر روزہ دار کے حلق میں غبار یا مکھی یا دھواں داخل ہو خواہ اسے روزہ یاد ہو تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، تیل یا سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا خواہ ان کا ذائقہ حلق میں محسوس ہو، بوسہ لینے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا بشرطیکہ اس سے انزال نہ ہو، احتلام سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
کلی کرنے کے بعد جو تری منہ میں رہ گئی اس کو نگلنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا، کان میں پانی داخل ہونے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا، اگر دانتوں کے درمیان سے خون نکلا اور اس کو نگل لیا تو اگر خون غالب تھا تو روزہ ٹوٹ گیا ورنہ نہیں، اگر ناک (رینٹ) کو اندر کھینچ لیا اور وہ حلق میں چلی گئی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، کسی چیز کے چکھنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ (در مختار علی ہامش ردالمحتار، ج2، ص114)
وہ اسباب جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
علامہ علاؤ الدین حصکفی ؒ لکھتے ہیں اگر رات سمجھ کر سحری کی اور صبح ہوچکی تھی یا غروب آفتاب سمجھ کر روزہ افطار کیا اور آفتاب غروب نہیں ہوا تھا تو روزہ ٹوٹ گیا، اس پر صرف قضاء ہے، کفارہ نہیں، اگر کوئی شخص رمضان کے روزہ میں عمداً جماع کرے یا عمداً دوا یا غذا کھائے یا پئے تو ان تمام صورتوں میں قضا اور کفارہ ہے۔
اگر ازخود قے آئے اور وہ اس کو واپس حلق میں نہ لوٹائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، خواہ قے منہ بھر کر آئے یا منہ بھر کر نہ آئے، اگر خود بخود واپس حلق میں چلی جائے پھر بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا، اگر عمداً قے لوٹائی تو روزہ ٹوٹ جائے گا بشرطیکہ منہ بھر کر قے آئی ہو، اگر جان بوجھ کر خود قے کی تو اگر منہ بھر کر قے کی ہے تو اجماعاً روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس میں صرف قضاء ہے کفارہ نہیں ہے (درمختار علی ھامش، رد المختار، ج2 ، ص 115)۔
روزہ کی حالت میں مکروہ چیزیں
روزہ میں کسی چیز کو بلاعذر چکھنا مکروہ ہے، دنداسہ چبانا مکروہ ہے، معانقہ کرنا مکروہ ہے، مونچھوں پر تیل لگانا اور سرمہ لگانا مکروہ نہیں ہے، مسواک کرنا مکروہ نہیں ہے خواہ شام کے وقت کی جائے۔ (درمختار علی ھامش رد المختار )
روزہ کی حالت میں انجکشن لگوانا
علامہ غلام رسول سعیدیؒ لکھتے ہیں: تحقیق یہ ہے کہ انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، قدیم فقہاء کے دور میں انسانی جسم کی اور اس کے تمام اعضاء کی مکمل تحقیق نہیں ہوئی تھی اور ان کے نظریات محض مفروضات پر مبنی تھے، اب تحقیق اور تجربہ سے ان کے کئی نظریات غلط ثابت ہو چکے ہیں، ان کا مفروضہ تھا کہ دوا یا غذا معدہ میں پہنچ جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
جب ہم منہ کے ذریعہ دوا کھاتے ہیں تو معدہ کے ہضم کرنے کے بعد وہ دوا خون میں پہنچ جاتی ہے، جب تک وہ دوا خون میں نہ مل جائے اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا، اب میڈیکل سائنس نے ترقی کر لی ہے اور انجکشن کے ذریعے دوا کو براہ راست خون میں پہنچا دیا جاتا ہے، لہٰذا منہ کے ذریعہ دوا کھانے سے جو فائدہ مطلوب ہوتا ہے وہ انجکشن کے ذریعہ حاصل ہو جاتا ہے، اس لیے جس طرح دوا کھانے سے روزہ ٹوٹتا ہے اسی طرح انجکشن لگوانے سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔
بعض علماء یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ پھر مچھر یا بھڑ کے ڈنگ لگنے سے روزہ کیوں نہیں ٹوٹتا، اس کا جواب یہ کہ روزہ ٹوٹنے کا مدار اس پر ہے کہ انسان اپنے علم اور اختیار سے کوئی دوا یا غذا جسم میں پہنچائے اور مچھر یا بھڑ کے کاٹنے میں انسان کا علم اور اختیار نہیں ہے، ثانیاً ان کے ڈنک سے جو زہر جسم میں پہنچتا ہے وہ دوا یا غذا نہیں بلکہ اس سے جسم کو ضرر لاحق ہوتا ہے، دوا یاگلوکوز کا انجکشن علم اور ارادہ سے لگوائے جاتے ہیں،اس میں بدن کی اصلاح اور تقویت ہے، اس لیے ان کے لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس میں صرف قضا ہے کفارہ نہیں ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے اور فرمایا: اے عائشہ کیا روٹی کا ٹکڑا ہے؟ میں آپﷺ کے پاس روٹی کا ایک ٹکڑا لے کر آئی، آپﷺ نے اسے منہ میں رکھ کر فرمایا:اے عائشہؓ! بتاؤ اس سے کوئی چیز میرے پیٹ میں گئی؟ یہی معاملہ روزہ دارکے بوسہ دینے کا ہے، روزہ صرف کسی چیز کے داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا‘‘ (صحیح بخاری، ج1، ص260 )
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں: وضو (ٹوٹنے) کا تعلق ان چیزوں سے ہے جو خارج ہوں اور روزہ (ٹوٹنے) کا تعلق ان چیزوں سے ہے جو داخل ہوں (مصنف عبدالرزاق، ج1، ص170)۔
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمﷺکے پاس آیا، اس نے عرض کیا میری آنکھ میں تکلیف ہے، آیا میں روزہ میں سرمہ لگا سکتا ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں (جامع ترمذی،ص128)۔
وہ امور جن سے صرف قضا لازم ہوتی ہے
(1) کسی نے زبردستی روزہ دار کے منہ میں کوئی چیز ڈال دی اور وہ حلق سے اتر گئی، (2) روزہ یاد تھا مگر کلی کرتے وقت بلا قصد حلق میں پانی اتر گیا، (3) قے آئی اور قصداً حلق میں لوٹا دی یا قصداً منہ بھر کے قے کر ڈالی روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہوگی بشرطیکہ دونوں صورتوں میں قے منہ بھر کر ہو اور روزہ دار کو اپنا روزہ یاد ہو، اگر روزہ یاد نہیں ہے تو ان تمام صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
(4) کنکری یا پتھر کا ٹکڑا یا گٹھلی یا مٹی یا کاغذ کا ٹکڑا قصداً نگل لی، (5) دانتوں میں رہ جانے والی چیز کو زبان سے نکال کر نگل لیا جبکہ وہ چنے کے دانے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور اگر منہ سے نکال کر پھر نگل لیا تو چاہے چنے سے کم ہو یا زیادہ تب بھی روزہ ٹوٹ گیا، (6) دانتوں سے نکلے ہوئے خون کو نگل لینا جبکہ خون تھوک پر غالب ہو تو روزہ ٹوٹ گیا قضا واجب ہوگی۔
(7) بھولے سے کچھ کھا پی لینے کے بعد یہ سمجھنا کہ روزہ ٹوٹ گیا پھر قصداً کھا لیں، (8) کسی کی آنکھ دیر سے کھلی اور یہ سمجھ کر ابھی سحری کا وقت باقی ہے، کچھ کھا پی لیا پھر معلوم ہوا کہ صبح ہو چکی تھی، (9) رمضان المبارک کے سوا اور دنوں میں کوئی روزہ قصداً توڑ ڈالنا، (10) آسمان پر بادل یا غبارکے چھائے ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ کر کہ آفتاب غروب ہو گیا روزہ افطار کر لیا حالانکہ ابھی دن باقی تھا، ان تمام مندرجہ بالا صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی صرف قضا لازم ہوگی۔
مریض کے روزہ قضا کرنا
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں: جو شخص تندرست ہو اور روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کو بیمار پڑنے کا خدشہ ہو، وہ اس مریض کی طرح ہے جس کو روزہ رکھنے کی وجہ سے مرض کے بڑھنے کا خدشہ ہو (المغنی ، ج 3، ص42)، علامہ ابوبکر جصاص حنفی لکھتے ہیں، امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نے کہا : جب یہ خوف ہو کہ اس کی آنکھ میں درد زیادہ ہوگا یا بخار زیادہ ہوجائے گا تو روزہ نہ رکھے (احکام القرآن ج 1 ،ص ،174 )۔
علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی لکھتے ہیں: مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی کو غلبہ ظن سے اپنی جان یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو یا مرض بڑھنے کا خوف ہو، یا تندرست آدمی کو غلبہ ظن، تجربہ ،علامات یا طبیب کے بتانے سے مرض پیدا ہونے کا خوف ہو یا خادمہ کو ضعف کا خوف ہو تو ان کیلئے روزہ نہ رکھنا جائز ہے، بعد میں ان ایام کی قضاء کریں (درمختار علی ھامش، رد المختار، ج2 ،ص106-117)۔
جس شخص کے گردہ میں پتھری ہو یا جس کو درد گردہ کا عارضہ ہو اس کو دن میں بیس پچیس گلاس پانی پینے ہوتے ہیں یا جو شخص ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں داخل ہو، یہ لوگ اس بیماری کے دوران روزے نہ رکھیں اور بیمار زائل ہونے کے بعد ان روزوں کی قضا کریں۔
سفر کی حالت میں روزہ
امام بخاری روایت کرتے ہیں، حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک سفر میں بھیڑ دیکھی اور دیکھا کہ ایک شخص پر سایہ کیا گیا ہے، آپﷺ نے پوچھا : اس کو کیا ہوا؟ عرض کیا: یہ روزہ دار ہے، فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں (صحیح بخاری: 1946)۔
روزہ کا فدیہ
علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں: جو شخص بہت بوڑھا اور روزہ رکھنے سے عاجز ہو، اسی طرح جس مریض کے مرض کے زوال کی توقع نہ ہو وہ ہر روزہ کیلئے فدیہ دیں (درمختار علی ھامش، رد المختار ،ج 2 ،ص 119)، ایک روزہ کیلئے نصف صاع یعنی دو کلو گندم یا اس کی قیمت فدیہ دے، روزہ کے فدیہ میں فقراء کا تعداد شرط نہیں ہے اور ایک فقیر کو متعدد ایام کا فدیہ دے سکتا ہے (درمختار علی ھامش رد المختار ج2، ص119)، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت حالت کے نارمل ہوتے ہی روزہ کی قضا کریں گی نہ کہ فدیہ دیں گی، اسی طرح شوگر، بلڈ پریشر، دمہ اور جوڑوں کا درد یہ چار بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ہے۔
روزہ توڑنے کا کفارہ
کفارہ کا حکم عموماً روزے رکھنے، غلام آزاد کرنے، مساکین کو کھانا کھلانے یا دو ماہ کے مسلسل روزہ رکھنے پر مشتمل ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: ’’ایک شخص نے رمضان میں (دن کے وقت) اپنی بیوی سے صحبت کر لی، پھر رسول اللہﷺ سے اس سلسلہ میں مسئلہ دریافت کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم غلام آزاد کر سکتے ہو؟ اس نے عرض کی : نہیں، آپﷺ نے فرمایا : دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو‘‘ (صحیح مسلم: 1111)
مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 آرٹیکلز بھی شائع ہوچکے ہیں۔