لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صلوٰۃ کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے، زکوٰۃ ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ دولت صرف چند ہاتھوں تک محدود ہو کر نہ رہ جائے بلکہ مستحقین اور ضرورت مند لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اسلام نے جہاں زکوٰۃ کے فضائل، فوائد، شرائط، نصاب، اَقسام، اَحکامات اور مسائل کو ذکر کیا ہے وہاں پر اس فریضے کو چھوڑنے، اس میں غفلت برتنے والے کے بارے میں وعیدیں بھی ذکر فرمائی ہیں۔
اللہ کی رحمت کے مستحق: مفہوم آیت: ’’نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رسولؐ کی کامل تابعداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘( النور:56)
آخرت میں خوف نہیں ہوگا: مفہوم آیت: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لائے، نیک اعمال کئے بطور خاص نماز کو قائم کیا اور زکوٰۃ ادا کی ان کیلئے ان کا اجر ہے، ان کے رب پاس اور (قیامت کے دن) نہ اپنے بارے میں خوفزدہ ہوں گے اور نہ دوسروں کے بارے غمزدہ ہوں گے‘‘ (البقرہ:277)
آخرت میں اجر عظیم: مفہوم آیت: اور وہ لوگ جو نماز کو قائم کرنے والے ہیں، زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان (یعنی عقیدہ توحید سے عقیدہ آخرت تک تمام عقائد) رکھنے والے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں کہ ہم عنقریب (قیامت والے دن) انہیں بہت بڑا اجر دیں گے۔ (النساء:162)
ترک زکوٰۃ پر وعید: مفہوم آیت: ’’جو لوگ سونا و چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (یعنی زکوٰۃ نہیں نکالتے) تو اے نبی آپ ان کو ایک بڑے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے، جس دن اس مال کو جہنم کی آگ پر تپایا(گرم کیا) جائے گا پھر اس تپے ہوئے مال سے زکوٰۃ نہ دینے والوں کی پیشانیاں اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا کہ) یہ وہی مال ہے جو تم نے اپنی ذات کیلئے جمع کیا تھا تو اب اس جمع کرنے کا مزہ چکھو‘‘(سورۃ التوبہ: 34، 35)
زکوٰۃ نہ دینے والے کی نماز: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ہمیں(اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے) نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا، جس نے (باوجود صاحب نصاب ہونے کے) زکوٰۃ ادا نہ کی تو اس کی نماز بھی قبول نہیں (المعجم الکبیر للطبرانی: 10095)
مال کے نقصان دہ پہلو کا خاتمہ: حضرت جابرؓ سے مروی ہے ایک شخص نے آپﷺ سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں آپﷺ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے مال کا نقصان دہ پہلوختم ہوگیا (المعجم الاوسط للطبرانی: 1579)
نصاب: ساڑھے باون تولے یعنی 612.36 گرام چاندی یا ساڑھے سات تولے یعنی 87.5 گرام سونے کو نصاب کہا جاتا ہے۔
صاحبِ نصاب: ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر پیسے یا سامانِ تجارت جس شخص کے پاس موجود ہے اوراُس پر ایک سال گزر گیا ہے تو اُسے صاحبِ نصاب کہا جاتا ہے۔
زکوٰۃ کس پر واجب ہے؟ ہر وہ عاقل بالغ مسلمان جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کے برابر نقدی، چاندی، سونا یا مال تجارت موجود ہو اس پر زکوٰۃ واجب ہے، اگر صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اگر کچھ نقد رقم، کچھ مال تجارت اور کچھ چاندی ہو یا ان میں سے کوئی دو چیزیں ہوں اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہوجائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔
جس دن آپ کی ملکیت میں مذکورہ نصاب کے برابر پیسے آجائیں وہ دن آپ کیلئے زکوٰۃ کا دن ہے، اگر یاد نہ ہو تو پھر ہجری سال کی کوئی تاریخ مقرر کر لیں اور ہر سال اسی تاریخ کو حساب کیا کریں، کل مال کا چالیسوں حصہ یا اڑھائی پرسنٹ زکوٰۃ کی مد میں دینا فرض ہے۔
بس یہ ذہن میں رکھیں کہ جس تاریخ کو زکوٰۃ کا حساب کرنا ہے وہ تاریخ تبدیل نہ ہو، ہر سال اسی تاریخ کو حساب کر لیا کریں، نابالغ پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی، لڑکی کے بالغ ہونے کی کم از کم عمر 9 سال اور لڑکے کی 12 سال ہے، اس عمر میں پہنچنے کے بعد جب بلوغت کی علامات ظاہر ہوں، انہیں بالغ سمجھا جائے گا، اگر بلوغت کی علامات ظاہر نہ ہوں تو قمری سال کے اعتبار سے 15 سال کے بعد لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جائے گا۔
زکوٰۃ کے وجوب کی شرائط: زکوٰۃ کے وجوب کی شرائط درج ذیل ہیں: اسلام، بلوغ، عقل، نصاب۔ ہر آدمی کا زکوٰۃ کا حساب الگ ہوتا ہے، خاوند کا الگ، بیوی کا الگ، ماں کا الگ، بیٹی کا الگ۔ جو جو صاحب نصاب ہوگا اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
زیورات پر زکوٰۃ:علماء و فقہاء اور محدثین، قرآن و سنت کی روشنی میں عورتوں کے سونے یا چاندی کے استعمالی زیور پر وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں، اگر وہ زیور نصاب کے مساوی یا زائد ہو اور اس پر ایک سال بھی گزر گیا ہو، قرآن وسنت کے عمومی احکام میں سونے یا چاندی پر بغیر کسی استعمالی یا غیر استعمالی شرط کے زکوٰۃ واجب ہونے کا ذکر ہے اور ان آیات و احادیث شریفہ میں زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں، متعدد آیات و احادیث میں یہ عموم ملتا ہے۔
مفہوم آیت: ’’اور جو لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے (یعنی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے) انہیں دردناک عذاب کی خبر دیجیے‘‘ (سورۃ التوبہ:34)، اس آیت میں عمومی طور پر سونے یا چاندی پر زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے خواہ وہ استعمالی زیور ہوں یا تجارتی سونا و چاندی۔
حضرت اسماء بنت یزیدؓ روایت کرتی ہیں: میں اور میری خالہ حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، ہم نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے، حضور اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ ہم نے کہا: نہیں، حضور اکرمﷺ نے فرمایا: کیا تم ڈرتی نہیں کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے آگ کے کنگن تمہیں پہنائے؟ لہٰذا ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔
پراپرٹی پر زکوٰۃ: (1) رہائش کی نیت سے خریدی گئی زمین یا گھر، اس پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی، (2) جو دکان اس غرض سے خریدی ہو کہ اس میں کاروبار کیا جائے گا تو اس دکان کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، (3) پراپرٹی خریدتے وقت اگر کوئی نیت نہ کی ہو کہ اس کو بیچنا ہے یا رہائش اختیار کرنی ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے۔
(4) جو پراپرٹی تجارت کی نیت سے لی ہو کہ اس کو فروخت کر کے نفع کمایا جائے گا تو ایسی تمام پراپرٹیز اگر نصاب کے بقدر ہوں تو ہر سال ان کی موجودہ ویلیو کا حساب کر کے کل مالیت کا ڈھائی فیصد بطور زکوٰۃ ادا کرنا شرعاً لازم ہوگا، (5)اگر پراپرٹی کرایہ پر دی ہو تو اس پراپرٹی کی مالیت پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی، البتہ اگر حاصل ہونے والا کرایہ جمع ہو اور پراپرٹی کا مالک پہلے سے صاحب نصاب ہو یا جمع شدہ کرایہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو سالانہ اس پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہو گا، اگر کرایہ خرچ ہو جاتا ہو، بچت میں جمع نہ ہوتا ہو تو اس کرائے پر زکوٰۃ نہیں ہوگی۔
(6) قسطوں پر خریدا ہوا پلاٹ اگر تجارت کی نیت سے خریدا ہو تو اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، خواہ قبضہ ملا ہو یا نہ ملا ہو، اس کی موجودہ قیمتِ فروخت کا اڑھائی فیصد بطورِ زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے، (7) تجارت کی نیت سے خریدی ہوئی پلاٹ کی فائل کی موجودہ قیمت پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، (8)زرعی زمین اگر تجارت کی نیت سے خریدی جائے تو اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، اگر زراعت کی نیت سے خریدی جائے تو زکوٰۃ واجب نہیں۔
زکوٰۃ کس کو نہیں دے سکتے: زکوٰۃ کی رقم نبی کریمﷺ کے خاندان کیلئے حلال نہیں، آپﷺ کے خاندان سے مراد ہیں آل علی، آل عقیل، آل جعفر، آل عباس اور آل حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم، جو شخص مذکورہ پانچ بزرگوں کی نسل سے ہو اسے زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔٭کافر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ ٭ایسی این جی اوز اور ادارے جو شرعی حدود کا لحاظ نہیں کرتے، انہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ ٭شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اور نہ ہی صدقات واجبہ دیئے جا سکتے ہیں۔
٭اپنے آباؤ اجداد یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور اپنی آل اولاد یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسہ نواسی وغیرہ کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں، ان کے علاوہ باقی رشتہ داروں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ ٭مسجد میں زکوٰۃ کی رقم نہیں دے سکتے، ٭مستحق ملازمین کو بطور تنخواہ زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں۔
زکوٰۃ کس کو دے سکتے ہیں: ہر ایسے مسلمان کو جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی مالیت کے بقدر سونا، نقد رقم، مال تجارت یا روزمرہ کی استعمال سے زائد اشیاء نہ ہوں وہ زکوٰۃ اور صدقات کا مستحق ہے، جس کو زکوٰۃ کی رقم دیں اسے بتانا ضروری نہیں۔
زکوٰۃ کا بہترین مصرف: مستحق رشتہ دار ہیں اس میں دُہرا ثواب ہے، ادائیگی زکوٰۃ اور صلہ رحمی، دینی مدارس ہیں کہ اس میں بھی دگنا ثواب ہے اشاعت وتحفظ دین اور ادائیگی زکوٰۃ۔
مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔