لاہور: (صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی) حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے جو صاحب حیثیت افراد پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، حج اللہ کی ملاقات کیلئے اس کے گھر کی طرف سفر کرنے، اس کا طواف کرنے اور اس کی خاطر جسم اور مال کی قربانی دینے کا نام ہے۔
یہ اللہ سے محبت کی نشانی اور اس کا اظہار ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر کعبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا: ’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، وہ تمہارے پاس پیدل اور دبلے اونٹوں پر ہر دور کی گھاٹی سے آئیں گے‘‘ (الحج: 27)۔ اس حکم الہٰی کے بعد حج کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست ابراہیم علیہ السلام، ان کی بیوی حضرت بی بی ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کے بعض مخلصانہ اعمال کو قیامت تک کیلئے مناسک حج میں شامل کر دیا، ایمان باللہ کے بعد حج سب سے افضل عمل ہے، حج کا ثواب جہاد کے برابر ہے اور حج و عمرہ کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
حج: اللہ سے محبت کی تکمیل اور عبدیت کی تصویر
’’عبدیت‘‘ انسانیت کا نہایت افضل و اعلیٰ مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ کے منتخب اور مخصوص بندوں کا وصف خاص ہے، اسی وجہ سے شب معراج میں رب العالمین نے رحمۃ للعالمین ﷺ کو اسی وصف سے یاد فرمایا (أَسْریٰ بِعَبْدِہ) کلمۂ شہادت میں بھی رسالت سے قبل عبدیت کا ذکر ہے، جس سے مقامِ عبدیت کی عظمت واضح ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ عبدیت کی حقیقت کیا ہے؟ مختصر لفظوں میں اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ عبدیت تسلیم و رضا یعنی حکم خدا اور مرضی مولیٰ کے سامنے فنائیت اختیار کرنے کا نام ہے، ایک بندے کا سب سے بڑا وصف اور وظیفہ عبدیت ہی ہے، جس میں عبدیت نہیں وہ عبد کامل نہیں، اس کا رب اس سے راضی نہیں، اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں، عبادتوں، ریاضتوں اور مجاہدوں کا مطلوب و مقصود یہی ہے کہ بندوں میں عبدیت اور فنائیت کا جذبہ پیدا ہو جائے، اللہ تعالیٰ کے آگے سراپا تسلیم و رضا بن جائیں اور جب جو حکم ہو اسے بے چوں و چرا مان لیں۔
تمام اسلامی احکام، اعمال اور عبادات میں یہ شان موجود ہے کہ ان کی صحیح ادائیگی سے ایک بندے میں عبدیت پیدا ہوتی ہے، بالخصوص حج، جو اسلام کے پانچ ارکان میں آخری اور تکمیلی رکن ہے، اس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور عظمت کی تکمیل اور عبدیت و فنائیت کی تصویر ہے، اگر حج و حاجی کے حالات، ارکان، اعمال، افعال اور عبادات میں غور کیا جائے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی تکمیل اور عبدیت کی وہ تصویر نظر آتی ہے کہ اس کیلئے کسی تفصیل و تشریح کی بھی ضرورت نہیں۔
حج کا سفر …عبدیت اور اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت
دیکھئے! جو شخص حج بیت اللہ کا ارادہ اور عزم کر کے گھر سے نکلتا ہے تو سفر حج کی ابتدا ہی میں وہ گھر بار، کاروبار اور احباب و رشتہ داروں کو خیر باد کہتا ہے، رب کیلئے سب کو چھوڑتا ہے تو عازمِ سفر حج کے سر میں جو سودا سمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہی تو ہے، جس کے حصول کیلئے وہ سفر کی مشقت بخوشی برداشت کرتا ہے اور سفر بھی وہ جس میں جسم و جان، دل و ایمان اور بحر و بر کے اندیشے موجود ہیں۔
جن کی وجہ سے بعض اوقات بڑے بڑے حلیم و بردبار بھی صبر و ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں، اسی لیے تو سفر کو سقر کہا گیا کہ سفر بھی ایک اعتبار سے امتحان کا ایک حصہ ہے، پھر سفرِ حج کا حال یہ ہے کہ اگر کامیابی کے ساتھ ادا ہوگیا، یعنی حج قبول ہوگیا تو اس سے بڑی کامیابی اور سعادت نہیں۔
حدیث میں ہے کہ کامیابی کے ساتھ اس سفر سے لوٹنے والا اپنے گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے کہ دھویا دھلایا اور گویا ماں کے پیٹ سے آج ہی دنیا میں آیا، حج کا سفر سعادت، عبدیت اور اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت ہے اور جس میں عبدیت اور اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں وہ حج سے محروم رہ جاتا ہے، اسے حدیث میں وارد وعید شدید سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں حج سے محرومی آخری وقت میں ایمان سے محرومی کا ذریعہ نہ بن جائے، اس سفر سے قصداً محروم رہنے والے بدنصیب ہیں اور آگے بڑھنے والے خوش نصیب ہیں۔
حج کی میقات پر عبدیت کا منظر
پھر سعادت مند لوگ حج میں منزلِ مقصود سے پہلے اس مرحلہ پر پہنچتے ہیں جہاں سے احرام کے بغیر گزرنا جائز نہیں، یہاں پہنچ کر عبدیت کا منظر نظر آتا ہے کہ حج کا یہ مسافر اپنی ساری ظاہری زینت چھوڑ دیتا ہے، خوشبو استعمال نہیں کرتا، وہ مانوس اور سلا ہوا کپڑا نہیں پہنتا، نہ سر پر ٹوپی اور پگڑی، نہ جسم پر کوٹی و شیروانی، شاہ و گدا، رئیس و رعایا، حکام و عوام، نامی و عامی، امیر و فقیر دیکھتے ہی دیکھتے سب کے ہی پوشاک و لباس اور سارے امتیازات مٹ جاتے ہیں، کیوںکہ حج کی اس میقات سے اب سب سے بڑے مہاراجہ اور شہنشاہِ مطلق کی راجدھانی کی حدود شروع ہوگئی ہے، اب کوئی راجہ ہے نہ رعایا، بلکہ سب کے سب اسی کی رعایا ہیں اور سارے کے سارے اس مالک الملک کے غلام ہیں۔
سب کے بدن پر ایک ہی قسم کا کپڑا اور زبان پر ایک ہی پکار
’’لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَ الْمُلْکَ، لاَ شَرِیْکَ لَکَ‘‘(متفق علیہ، مشکوٰۃ)، زبانوں پر یہ صدائیں ہیں، تو مردوں کے جسم پر دو سادہ چادریں ہیں، (مردوں کیلئے) گویا دربار الہٰی کی حاضری کا یہی لباس ہے، جو کفن، قبر اور حشر کی یاد دلاتا ہے، اس حالت میں اس لیے بلایا گیا ہے کہ یہاں طلب ہے تو کفن پوشوں کی یا ان کی جو انہیں کی وضع قطع اختیار کر چکے ہیں، ان کی جو جیتے جی مُردوں کا لباس پہن چکے ہیں۔
آج اس میقات حج سے حجاج کا صرف لباس ہی مردوں کا لباس نہیں بنا، بلکہ کہنا چاہیے کہ نفس بھی مُردہ بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ حج کا منظر جو قرآن نے پیش کیا وہ یہ ہے کہ ’’حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے، نہ کوئی گناہ، نہ کوئی جھگڑا‘‘ (البقرہ)، احرام کا یہ لباس اور اس کی ساری پابندیاں بندوں کی بندگی، بے حیثیتی اور عیش دنیوی سے بے رغبتی کا حقیقی منظر ہے۔
کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر!
اس کے بعد سفر سعادت کی اگلی بنیادی منزل اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا گھر ہے، یہاں پہنچ کر حجاج بیت اللہ فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں، انہیں عبدیت کے سوا کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا، کعبۃ اللہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی رعنائی و دلکشی رکھی ہے کہ وہ منظر آنکھوں اور دل میں سما جاتا ہے، وہاں کے حقیقی انوار کا ادراک تو اہل قلب و نظر کرتے ہیں لیکن وہاں کے جلال و جمال کا منظر تو ہم جیسے کم ظرفوں کو بھی نظر آ جاتا ہے، روایتوں میں آتا ہے کہ کعبۃ اللہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔
مطاف کا منظر
اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اپنے مولیٰ کی طرف منسوب مقدس چیزوں سے بھی محبت بلکہ و الہانہ کا تعلق رکھے، اسی بنیاد پر حجاج بیت اللہ بھی خانہ کعبہ اور اس کے مقدس مقامات سے عقیدت و عظمت کا معاملہ کرتے ہیں، خانہ خدا کا دیوانہ وار چکر لگاتے ہیں۔
مطاف کا حال یہ ہے کہ ایام حج ہی میں نہیں بلکہ فتح مکہ مکرمہ سے آج تک فرض نمازوں کے علاوہ دن رات کے کسی گھنٹہ یا گھڑی میں خالی نہیں رہتا، ہر آن اور ہر لمحہ مطاف میں طواف کا چکر مسلسل جاری رہتا ہے، صبح وشام کے ٹھندے وقتوں کی بات نہیں، رات کے ایک دو بجے جا کر دیکھئے، ٹھیک دوپہر کی تیز گرمی میں جا کر دیکھئے، ہر وقت مشتاقانِ بیت اللہ طواف میں مشغول ہیں۔
منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کا منظر
طوافِ بیت اللہ کے علاوہ حج کے دیگر ارکان واعمال کی ادائیگی کیلئے حجاج بحکمِ خدا کعبہ کو خیر باد کہتے ہوئے 8 ذی الحجہ کو منیٰ، 9 ذی الحجہ کو عرفات جہاں اپنے سارے گناہوں کا کیا جاتا ہے اعتراف، پھر رات میں مزدلفہ اور 10 ذی الحجہ کو پھر منیٰ کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں کا منظر بھی نہایت پر کیف کہ بظاہر تو جنگل ہے، جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہے، جس کی وجہ سے جنگل میں منگل نظر آتا ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں حجاج و عشاق موجود! اور جسے دیکھئے وہی (مرد) دو سادہ سفید چادروں میں ملبوس، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق فرشتوں نے آج منیٰ، عرفات و مزدلفہ کی یہ زمین بسائی ہے، نورانی صورتیں، ہر وقت ذکر الہٰی سے تر زبانیں اور زبان پر لبیک لبیک کی صدائیں، افعالِ حج کے یہ مناظر اور حجاج کی یہ ساری ادائیں بتلاتی ہیں کہ عشق و محبت کی صحیح اور حقیقی حقدار صرف اور صرف وہی ذاتِ پاک ہے جس نے ہمیں اور کائنات کے ذرّہ ذرّہ کو پیدا کیا۔
اگر چاہنا ہو تو اسی کو چاہو، پکارنا ہو تو اسی کو پکارو، مانگنا ہو تو اسی سے مانگو، ماننا ہو تو اسی کو مانو، کسی کی یاد میں سر گرداں پھرنا ہو تو اسی کی یاد میں سر گرداں پھرو، سب کچھ وہی ہے اور ہم سب اسی کے بندے ہیں، بندگی ہمارا مقصد زندگی ہے، ایک بندہ کا سب سے بڑا کمال عبدیت پیدا کرنا ہے، جس کا ذریعہ عبادت ہے، بالخصوص حج! جیساکہ واضح ہوگیا، حق تعالیٰ ہم سب کو یہ سعادت بار بار نصیب فرمائے (آمین)
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی ترجمان جماعت اہلسنت پاکستان صوبہ پنجاب، خطیب جامعہ الطافیہ سلطان الذاکرین ہیں، 27 سال سے مختلف جرائد کیلئے لکھ رہے ہیں۔