اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) پاکستان تحریک انصاف کئی دھڑوں میں بٹ کر رہ گئی ہے، صورتحال کی سنگینی دیکھتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے جماعت کے ناراض گروپوں کے ارکان کو جیل میں ملاقات کیلئے بلا لیا ہے، عمر ایوب جنرل سیکرٹری کے اہم عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں جنہیں استعفیٰ واپس لینے کا کہا جا رہا ہے۔
آج اڈیالہ جیل میں ملاقات کیلئے بلائی گئی قیادت میں عمر ایوب بھی شامل ہیں، پاکستان تحریک انصاف میں بننے والے دھڑوں سے پارٹی کی موجودہ فعال قیادت کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں، تحریک انصاف کے حوالے سے دو تاثر تیزی سے اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ پہلا یہ کہ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور قیادت میں پھوٹ پڑ چکی ہے جبکہ دوسرا یہ کہ کچھ پرانے لوگوں کو پارٹی میں اُتار کر اسے کمزور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اپنی سیاسی حکمت عملی کے باعث معاملات کو اس نہج پر لے جا چکی ہے جہاں پارٹی کا نظم برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے، بانی پی ٹی آئی کی اسیری کے باعث صرف گنے چنے پارٹی رہنماؤں کو ہی ان تک رسائی ہے، اس محدود رسائی کے باعث یہ چند افراد ہی پارٹی کے فیصلوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں، پارٹی قیادت کے یہ چند افراد جیل میں قید سابق وزیر اعظم کو باہر کی جتنی اور جیسی تصویر دکھاتے ہیں پارٹی کے فیصلے اسی رُخ پر ہوتے ہیں، پارٹی کی اصل فیصلہ ساز باڈی یعنی کور گروپ اگرچہ درجنوں افراد پر مشتمل ہے مگر دھڑے بندی کے باعث عملاً غیر فعال ہو چکی ہے۔
کور گروپ میں شامل پارٹی کے پرانے لوگوں سے مشاورت ختم ہو چکی ہے، شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار سمیت کئی اراکین ایسے ہیں جو پارٹی قیادت کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی تک رسائی نہ ملنے پر اضطراب کا شکار ہیں اور موجودہ قیادت کی سیاسی حکمت عملی سے ناخوش ہیں، ان کے مطابق موجودہ پارٹی قیادت کی حکمت عملی کے باعث بانی پی ٹی آئی کی رہائی عمل میں نہیں آسکی کیونکہ قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، کچھ دھڑے پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کے باعث بنے ہیں جبکہ کچھ گروپس نئی قیادت کی جانب سے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کی وجہ سے بن رہے ہیں۔
رہنماؤں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات میں شدت آتی جا رہی ہے جس کے باعث پاکستان تحریک انصاف اپنا نظم کھو چکی ہے، تحریک انصاف میں ایک دوسرے کو مقتدرہ کے ساتھ انگیج ہونے کے معاملے پر شک کی نگاہ سے دیکھا جانا معمول بن چکا ہے، پارٹی کے ساتھ وفاداری کا معیار یہ بن چکا ہے کہ اداروں سے متعلق سخت رویہ اپنایا جائے تو مانا جائے گا کہ تحریک انصاف کا وفا دار ہے، حالانکہ اسی حکمت عملی نے پی ٹی آئی کو اس نہج تک پہنچایا ہے، اگر کوئی اپنے کیس کے میرٹ پر بھی جیل سے باہر آجائے تو اسے منیج ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور اس کی وفاداری کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
فواد چودھری گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اچانک منظر عام پر آئے اور غیر رسمی طور پر تحریک انصاف کا حصہ نظر آنے لگے، فواد چودھری نے پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت پر تنقید کے نشتر چلا دیئے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا امکان نہیں، تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کی سیاسی حکمت عملی نہ ہونے کے باعث ان کی جماعت کے لوگ کچلے جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ موجودہ قیادت روز کہتی ہے کہ آج فلاں کیس کا فیصلہ ہوگیا، کیا عدالتوں نے بانی پی ٹی آئی کو باہر نکالنا ہے؟
فواد چودھری پارٹی میں ازخود متحرک ہونے کے بعد تحریک انصاف کے کچھ حلقوں میں شک کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے کہ انہیں شاید کہیں سے لانچ کیا گیا ہے تاکہ تحریک انصاف کو کمزور کیا جا سکے مگر تحریک انصاف کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ فواد چودھری کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ خود سے متحرک ہوئے اور وہ اسیری کے دوران بانی پی ٹی آئی کے ساتھ بالواسطہ طور پر رابطے میں بھی رہے ہیں۔
فواد چودھری نے نو مئی کے واقعات کے بعد جب پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تو ان کا طریقہ کار ان کے دیگر ساتھیوں سے مختلف تھا، ان کے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ وہ اپنی راہیں جدا کر رہے ہیں، اس کے بعد استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت بھی برائے نام اختیار کی، تھوڑے عرصے میں واضح ہو چکا تھا کہ فواد چودھری نئے سیاسی سیٹ اَپ کے ساتھ چلنے کیلئے تیار نہیں، انہوں نے پارٹی چھوڑنے والے دیگر ساتھیوں کی طرح بانی پی ٹی آئی اور جماعت کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کی مگر ان کی واپسی تحریک انصاف کی نئی قیادت کو کھٹک رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی باگ ڈور جن شخصیات کے ہاتھ میں ہے وہ ماضی میں فعال لیڈر شپ کو اپنے لئے سیاسی خطرہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں بتایا گیا کہ فواد چودھری کو واپس لیا گیا تو پارٹی کیلئے قربانیاں دینے والی لیڈر شپ اور کارکنوں میں بے چینی پھیلے گی، فواد چودھری تو خود کو پی ٹی آئی کا حصہ سمجھ رہے ہیں مگر انہیں رسمی طور پر اعلیٰ قیادت کی جانب سے قبول نہیں کیا جا رہا، مگر تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان فواد چودھری کو پارٹی میں واپس لانا چاہتے ہیں۔
فواد چودھری سمیت تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عدالتوں سے ریلیف ملنے کے باوجود تحریک انصاف اور اس کے بانی کی مشکلات اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتیں جب تک مقتدرہ کے ساتھ معاملات ٹھیک نہ ہو جائیں، ان کے مطابق حکومت اس وقت تک پاکستان تحریک انصاف کو انگیج نہیں کرے گی جب تک سٹریٹ پاور کا اثر نہیں دکھایا جاتا اور اس مقصد کیلئے تحریک انصاف کو دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام، جی ڈی اے اور جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکمت عملی طے کرنا ہوگی، اپنی سیاسی وقعت دکھانے کے بعد گرینڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ کا ماحول پیدا کرنا ہوگا جس کے بغیر تحریک انصاف مشکلات سے نہیں نکل سکتی۔