لاہور: (قاسم علی شاہ) میرے دوست شرجیل اکبر صاحب گزشتہ مہینے ایک واردات کا شکار ہوئے جس کے بعد پولیس کے غیر معمولی کردار نے فرض شناسی کی بہترین مثال قائم کر دی۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ شرجیل اکبر صاحب 13 اگست کی رات گاڑی چلاتے ہوئے لاہور کے ریگل چوک سے گزر رہے تھے، رش بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگئی تھی، آس پاس بے شمار لوگوں کے ساتھ وہ بھی راستہ کھلنے کے منتظرتھے، اس دوران ایک شخص گاڑی کے بائیں طرف والے آئینے سے ٹکرایا جس سے وہ ٹیڑھا ہوگیا، (یہ پہلا داؤ تھا) شرجیل صاحب توقع کر رہے تھے کہ وہ شخص گاڑی کا آئینہ درست کر دے گا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا توشرجیل صاحب نے ہاتھ بڑھاکر بائیں طرف والا شیشہ نیچے کیا تاکہ اس شخص کو غلطی کا احساس دلائیں۔ اسی دوران انھیں محسوس ہوا کہ گاڑی کے پچھلے حصے سے کوئی چیز ٹکراگئی ہے، (یہ دوسرا داؤ تھا) انہوں نے ڈرائیونگ سیٹ والا دروازہ کھول کر پیچھے دیکھا تووہاں ایک شخص گرا پڑاتھا۔ اس نے شرجیل صاحب سے معذرت چاہی۔
اس دوران بمشکل 4 سے 5 سیکنڈ گزرے ہوں گے جس میں بائیں طرف کھڑے شخص کو موقع مل گیا، اس نے جھپٹا مارکر گاڑی سے کوئی چیز اٹھائی اور بھاگ گیا، ٹریفک کے اژدھام میں اس کے پیچھے بھاگنا ممکن نہیں تھا، راستہ کھل گیا اور گاڑیاں آگے بڑھنے لگیں، کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد شرجیل صاحب نے موبائل اٹھانے کے لیے ڈیش بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا، موبائل وہاں نہیں تھا۔ انہوں نے آس پاس تلاش کیا لیکن وہ کہیں نہیں ملا، ان پر یہ خطرناک انکشاف ہوگیا کہ چند لمحے پہلے پیش آنے والا واقعہ دراصل موبائل ہتھیانے کے لیے بنایا گیا تھا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ یہ موبائل اور قیمتی اشیا لوٹنے والا گروہ ہے جو لوگوں کا دھیان ہٹا کر اور رش کا فائدہ اٹھا کراس طرح کی وارداتیں کرتا ہے، میں نے اور شرجیل صاحب نے اس واقعہ کے متعلق ایک آگاہی پیغام بھی ریکارڈ کروایا تاکہ لوگ بیدارہوجائیں اور ایسی کسی چال کا شکار نہ ہوں۔
شرجیل صاحب نے تھانے میں موبائل گمشدگی کی رپورٹ درج کروانا چاہی لیکن کچھ معلومات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا، البتہ ان کی حیرانی کی انتہانہ رہی جب دو دن پہلے انہیں تھانے سے فون آیا کہ آپ کا موبائل مل چکا ہے، آکر لے جائیں، شرجیل صاحب سمجھے کہ کوئی دوست مذاق کر رہا ہے لیکن جب دوسری طرف سے تاکیداً کہا گیا کہ آکر موبائل لے لیں تو وہ سنجیدہ ہوگئے اور فوراً متعلقہ تھانے پہنچ گئے، جہاں انہیں موبائل مل گیا۔
یہ تھانہ اے ایس پی کامل مشتاق کی نگرانی میں ہے، کامل مشتاق عوامی شکایات کے ازالے کے سلسلے میں انتہائی مستعد ہیں اور اس مقصد کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں، ان کے ساتھ ایس ایچ او ہاشم بھٹی اور ان کی ٹیم سرگرم عمل ہے جو اس بات کی بھرپور کوشش کرتی ہے کہ موبائل چوری سمیت ہر طرح کی شکایات کو جلد از جلد حل کیا جائے، شرجیل اکبر صاحب کا موبائل بھی کامل مشتاق صاحب کی ٹیم نے پکڑا تھا، دیگر چوری شدہ موبائلوں کی رپورٹیں موجود تھیں لیکن شرجیل صاحب والے موبائل کی رپورٹ نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ لاوارث بن چکا تھا لیکن اس موقع پر پولیس افسران کی فرض شناسی اور کارکردگی قابل تحسین تھی۔
ایک پولیس افسر موبائل کا لاک کھولنے کی کوشش کرتا رہا، مسلسل غلط پاس ورڈ کے اندراج کی وجہ سے جب موبائل جام ہوجاتا تو وہ اسے گھنٹہ بھر کے لیے رکھ دیتا اور اس کے بعد دوبارہ کوشش کرتا، مقصد یہی تھا کہ کسی طرح موبائل کھل جائے اور اصل مالک کا سراغ لگا کر موبائل اس تک پہنچایا جائے، اس کی محنت رنگ لے آئی اور موبائل کھل گیا، جس کے بعد شرجیل صاحب سے رابطہ ممکن ہوگیا۔
اس تحریر کامقصد آپ کو چندضروری باتوں سے آگاہ کرنا ہے۔
1۔ اگر آپ گاڑی میں اکیلے سفر کر رہے ہیں اور آپ کے ساتھ شرجیل اکبرصاحب کی طرح کوئی واقعہ پیش آجائے تو فوری طور پر شیشہ نیچے نہ کریں، نہ ہی دروازہ کھولیں اور نہ ہی گاڑی سے باہر نکلیں، کچھ دیر انتظار کریں یہاں تک کہ خطرہ ٹل جائے۔
2۔ گاڑی کے ڈیش بورڈ پر موبائل، پرس یا دوسری قیمتی چیز ہرگز نہ رکھیں۔
3۔ اگر آپ کا موبائل چوری یا گم ہو جائے تو پہلی فرصت میں تھانے میں اس کی رپورٹ درج کروائیں، کیوں کہ رپورٹ درج نہ ہو تو پولیس کارروائی نہیں کر سکے گی، رپورٹ درج کروانے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اگر خدانخواستہ آپ کاموبائل کسی سماج دشمن کارروائی میں استعمال ہوا تو آپ پر الزام نہیں آئے گا، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ بازیابی کی صورت میں پولیس کے پاس ریکارڈ ہوگاجس کی بنیاد پر وہ بآسانی آپ تک آپ کا موبائل پہنچا سکے گی۔
فرض شناسی کے اس واقعے سے واضح ہوگیا کہ پولیس عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے اور دیانت داری کے ساتھ لوگوں کی امانت ان تک پہنچا رہی ہے، اس مثبت رویے کی بدولت معاشرے میں پولیس کے بارے میں موجود روایتی سوچ دم توڑ رہی ہے اور پولیس حقیقی معنوں میں عوام کی محافظ بن کر سامنے آ رہی ہے، پنجاب پولیس میں آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹرعثمان انور صاحب کی بدولت خاصی تبدیلی آئی ہے، انہوں نے بے شمار عوام دوست پالیسیاں بنائی ہیں جن کی وجہ سے پولیس اور عوام قریب آچکے ہیں اور اب لوگ اپنی شکایات کے اندراج کے لیے بغیر کسی خوف کے تھانے آرہے ہیں۔
پولیس ریکارڈ آن لائن دستیاب ہے جس سے عوام کو خاصی سہولت ملی ہے، سائلین کی شکایات سننے کے لیے عملہ موجود ہے، نیز انہوں نے اہم عہدوں پر ایسے نوجوان پولیس افسر متعین کیے ہیں جو خوف زدہ کرنے کے بجائے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں، یہ نوجوان افسران کچھ کر دکھانے کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی شبانہ روز محنت سے معاشرے کے امن کو یقینی بنا رہے ہیں، اے ایس پی کامل مشتاق اور ایس ایچ او ہاشم بھٹی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔