لاہور: (عبدالمالک مجاہد) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعثت نبوی کے نمایاں مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’بے شک یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں انھی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا یہ انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور بے شک وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔
اس آیت میں آپﷺ کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمانے کا ایک مقصد یہ بھی بیان ہوا ہے کہ آپ لوگوں کو تعلیم دیں، کتاب و حکمت کا علم دیں اور احکام الہٰی کی روشنی میں ان کی تربیت کریں، آپﷺ دنیا کے بہترین معلم تھے، اپنے موثر انداز تعلیم سے دنیا والوں کی کایا پلٹ دی، راہزنوں کو رہبر بنا دیا اور شرک کے پجاریوں کو توحید کی دولت سے مالامال کر دیا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ کتنے موثر طریقے سے اور کس قدر پیار بھرے انداز میں تعلیم دیتے تھے، سیدنا معاذؓ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں: ’’ رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’اے معاذ! اللہ کی قسم! مجھے تم سے محبت ہے، اے معاذ! اللہ کی قسم!’’ میں تم سے محبت کرتا ہوں‘‘، پھر فرمایا: ’’اے معاذ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا: ’’اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، شکر کرنے اور بہترین انداز میں اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما‘‘ (ابو دائود: 1522)۔
آپﷺ کی تعلیم دینے اور بات دل میں پوری طرح راسخ کرنے کا ایک دوسرا انداز ملاحظہ کریں، سیدنا معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں: میں ایک دفعہ نبیﷺ کی سواری پر آپﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا میرے اور آپ کے درمیان صرف کجادے کی پچھلی لکڑی حائل تھی، آپﷺ نے فرمایا: ’’اے معاذ!، میں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں، پھر آپﷺ تھوڑی دیر چلتے رہے، دوبارہ فرمایا: اے معاذ!، میں نے کہا اللہ کے رسولﷺ !میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر خدمت ہوں۔
آپﷺ نے پوچھا: ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟‘‘، میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسولﷺ ہی کو زیادہ علم ہے، آپ ﷺنے فرمایا: اللہ کا اپنے بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں‘‘، پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا : ’’اے معاذ بن جبل!‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! میں سعادت مندی کے ساتھ حاضر ہوں، آپﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں معلوم ہے، جب بندے یہ کام کر لیں تو ان کا اللہ کے ذمے کیا حق ہے میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ہی زیادہ علم ہے، آپﷺ نے فرمایا: ’’بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ انہیں عذاب نہ دے‘‘ (صحیح بخاری: 6500)۔
قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ نبی کریمﷺ نے دورانِ سفر اپنے صحابی کو سوال و جواب کے انداز میں کتنا بڑا سبق پڑھا دیا، یہ ہوتی ہے معلم کی دور اندیشی کے جونہی کوئی مناسب موقع دیکھا، تربیت کر دی۔
آپﷺ رحم دل بھی کمال کے تھے، آپﷺ میں نرمی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، کسی کو مصیبت میں دیکھنا آپﷺ سے برداشت نہیں ہوتا تھا، ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ میں نماز شروع کرتا ہوں اور اسے طول دینا چاہتا ہوں، پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، اس کو ناپسند کرتے ہوئے کہ اس بچے کی ماں کو تکلیف میں مبتلا کروں‘‘( صحیح بخاری: 707) ۔
سبحان اللہ! یہ آپﷺ کی رحم دلی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ آپﷺ بچے کی آواز سن کر اپنی نماز مختصر کر دیتے کہ اگر میں نماز لمبی کروں گا تو میرے پیچھے نماز پڑھنے والی اجتماع بچے کے رونے کی وجہ سے بے قرار ہوگی۔
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص آبپاشی کے دو اونٹ لے کر آیا جب کہ رات کافی گزر چکی تھی، اتفاقاً سیدنا معاذ ؓ نماز پڑھا رہے تھے، اس نے اپنے اونٹ بٹھائے اور سیدنا معاذ کی اقتدا میں نماز کیلئے چلا آیا۔ انہوں نے سورہ بقرہ یا سورۃ النساء پڑھنی شروع کر دی، چنانچہ وہ شخص وہاں سے چلا گیا اور اسے معلوم ہوا کہ معاذ ؓ نے اس کے متعلق کوئی تکلیف دہ بات کہی ہے۔ وہ شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے سیدنا معاذؓ کی شکایت کی تو آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: ’’اے معاذ! کیا تو فتنہ پرور یا فتنہ انگیز ہے؟ تو نے مختصر نماز کیوں نہیں پڑھائی جبکہ تیرے پیچھے عمر رسیدہ، ناتواں اور ضرورت مند لوگ نماز پڑھتے ہیں‘‘( صحیح بخاری: 707)۔
انسان تو انسان رہے، آپﷺ کسی جانور کے پیٹھ پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لدا ہوا دیکھتے تو بے چین ہو جاتے، آپﷺ جانوروں کو تکلیف پہنچانا بھی ناپسند سمجھتے، آپﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ بکری کو ذبح کرنے کیلئے لٹا کر اس کے سامنے ہی چھری تیز کر رہا ہے تو آپﷺ نے ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا: ’’کیا تم اسے دو موتیں مارنا چاہتے ہو، تم نے اسے لٹانے سے پہلے چھری تیز کیوں نہیں کی؟‘‘(الترغیب و الترھیب، 212/3)
وہ نبی جو جانور پر زیادہ بوجھ برداشت نہ کرتے تھے تو وہ قوموں اور افراد پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ کیسے ڈالتے! وہ تو آسانی پیدا کرنے والے اور لوگوں پر رحم کرنے والے تھے، آپﷺ واقعی نبی رحمت تھے، رحمت وشفقت آپﷺ پر ختم تھی، رحیم ہونا آپ کا نمایاں وصف اور امتیازی خوبی تھی، جیسے کہ آپﷺ نے خود فرمایا: ’’میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور آخر میں آنے والا ہوں اور حاشر ہوں اور نبی التوبہ ہوں یعنی آپ کی وجہ سے کثیر خلقت توبہ کرے گی اور نبی الرحمہ ہوں یعنی آپ کی وجہ سے انسان بہت سی رحمتوں سے نوازے گئے اور نوازے جائیں گے)‘‘( صحیح مسلم: 707)۔
آپﷺ کے نبی رحمت ہونے کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ جب کبھی دو چیزیں آپﷺ کے سامنے پیش کی جاتیں اور آپﷺ کو دو کاموں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا جاتا تو آپﷺ وہ کام منتخب فرماتے جس میں امت کیلئے آسانی ہوتی، جس پر عمل کرنا امت کیلئے آسان ہوتا، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہﷺ کو جب بھی دو باتوں کا اختیار دیا جاتا تو آپﷺ اس کو اختیار کرتے جس میں آسانی ہوتی بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتی، اگر وہ بات گناہ ہوتی تو آپﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔
صلح حدیبیہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ آپﷺ کتنے رحیم اور صلح جو تھے، آسانی والا معاملہ اختیار کرتے تھے، آپﷺ کتنی تمنا اور شوق سے عمرہ ادا کرنے کیلئے مدینہ منورہ سے نکلے، صحابہ کرامؓ کا ذوق و شوق بھی دیدنی تھا، جب مکہ کے قریب حدیبیہ مقام پر پہنچے تو مشرکوں نے عمرہ ادا کرنے کی اجازت نہ دی، آپﷺ نے سفارت کاری سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی مگر مشرک کسی صورت میں نہ مانے۔
آخر ایک معاہدہ ہوا جس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ اس سال آپﷺ عمرہ ادا کئے بغیر واپس چلے جائیں اور اگلے سال آ کر عمرہ کر لیں، آپﷺ نے آسانی والا معاملہ طے کیا، یہ شرط قبول کر لی اور اگلے سال قضائے عمرہ کیلئے تشریف لائے۔
قارئین کرام! آپ جانتے ہی ہیں کہ نبی کریمﷺ کا نام ’’محمد‘‘ آپ کے دادا عبدالمطلب نے رکھا تھا، آپ نے یہ نام کیوں رکھا تھا؟ محمد کا معنی ہے بار بار اور بہت زیادہ تعریف کیا گیا، اور احمد کا معنی ہے بہت زیادہ تعریف یا حمد و ثنا پانے والا، آپﷺ کی بہت زیادہ تعریف اس لیے کی جاتی ہے کہ آپﷺ عمدہ اخلاق، اعلیٰ کردار اور بہترین عادات کے مالک تھے، جس میں اچھی طرح خوبیاں ہوں، لوگ اسی کی تعریف کرتے ہیں، اسی کے گن گاتے ہیں، اسی کو آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔
بچوں سے پیار کرنا بھی آپﷺ کی نمایاں خوبی تھی، ایک دفعہ آپﷺ نے اپنے نواسے سیدنا حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو بے قرار ہوگئے ، بچے کو روتا دیکھ کر تڑپ اٹھے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ’’ آپؓ کو معلوم نہیں کہ اس کو روتا دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: 3560)۔
آپﷺ بچوں سے بڑا پیار کرنے والے تھے، پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اپنے نواسوں پر رحمت و شفقت کے پھول نچھاور نہ کرتے، اپنی لخت جگر کے جگر گوشوں کو اپنی محبتوں کی خوشبو سے محروم رکھتے، ایک دفعہ رسول اللہﷺ منبر پر جلوہ افروز ہیں، خطبہ دے رہے ہیں کہ اچانک اپنے نواسوں سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنھما پر نظر پڑتی ہے، وہ دونوں سرخ قمیض پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آ رہے ہیں۔
نبی رحمتﷺ نے انہیں گرتے پڑتے دیکھا تو خطبہ روک کر فوراً منبر سے نیچے اترے، آگے بڑھ کر ان دونوں کو اٹھا لیا، انہیں لا کر اپنے سامنے بٹھایا، اور پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: ’’تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں‘‘ (التغابن: 1564) میں نے ان دونوں کو آتے دیکھا تو میں صبر نہیں کر سکا اور انہیں اٹھا لیا‘‘ (جامع الترمذی: 3774)۔
قارئین کرام !ہمارے نبیﷺ رحمت و شفقت کا ٹھاٹے مارتا سمندر تھے، آج ہم اپنے رویوں پر غور کریں تو شاید ہم میں سے بہت تھوڑے لوگ ایسے ہوں گے کہ رحمت جن کے اخلاق کا نمایاں حصہ ہو، ہمارے نبیﷺ تو جانوروں پر بھی رحمت کیا کرتے تھے، مگر ہم مسلمان تو انسانوں کو قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے، والدین کو ستانے سے باز نہیں آتے، بزرگوں کو تکلیف دینے سے اجتناب نہیں برتتے، اگر ہمیں اپنے نبی رحمتﷺ سے سچی محبت ہے تو پھر ہمیں آپ کا کردار، اخلاق اور سیرت اپنانی چاہیے۔
عبدالمالک مجاہد معروف عالم دین، پبلشنگ کمپنی کے مالک اور بے شمار کتب کے مصنف ہیں۔