کسی مقدمے میں ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا: سپریم کورٹ

Published On 06 May,2025 11:45 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس کی سماعت سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کردہ نظرثانی درخواستوں کے دائرہ کار پر اہم فیصلہ جاری کر دیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نظرثانی کی درخواست صرف آئین کے آرٹیکل 188 اور سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کے تحت ہی دائر کی جا سکتی ہے۔

فیصلے کے مطابق کسی بھی عدالتی فیصلے پر محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا، نظرثانی کی درخواست میں کسی واضح قانونی یا فنی غلطی کی نشاندہی ضروری ہے، عدالت نے قرار دیا کہ وہ نکات جو پہلے مقدمے میں مسترد ہو چکے ہوں انہیں نظرثانی میں دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا اور نہ ہی یہ دلیل قابل قبول ہے کہ فیصلے میں کوئی دوسرا نقطۂ نظر شامل کیا جا سکتا تھا۔

فیصلے میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً 22 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے 56 ہزار سے زائد کیس سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہیں، ان میں ایک بڑا حصہ غیر ضروری اور من گھڑت نظرثانی درخواستوں کا ہے جن کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل بنچ نے جاری کیا ہے۔

دریں اثنا سپریم کورٹ میں آج مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت بھی ہوئی، جسٹس سید امین الدین خان کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ بنچ نے کی ۔

بنچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق، جسٹس باقر نجفی اور دیگر شامل ہیں۔

یاد رہے کہ 12 جولائی 2023 کو سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ان نشستوں پر نمائندگی دینے کا حکم دیا تھا، یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا تاہم وہ نظرثانی کیس سننے والے موجودہ بنچ کا حصہ نہیں ہیں۔