مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں سماعت کیلئے منظور، فریقین کو نوٹسز

Published On 06 May,2025 02:00 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13 رکنی آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی، آئینی بنچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔

وکیل حارث عظمت کے دلائل

سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت روسٹرم پر آئے اور مؤقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے، آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا پورے فیصلے سے اختلاف ہے یا پھر اکثریتی فیصلے سے؟

وکیل حارث عظمت نے کہا کہ ہمارا اختلاف اکثریتی ججز سے ہے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی نشستیں دینے کی استدعا ٹیکنیکلی مسترد کی تھی، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی کا سکوپ محدود ہے، اس پر دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے ریٹرننگ آفیسر (آر او) کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا، وکیل حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی وکلا کی فوج تھی، پھر بھی ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا گیا۔

کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں؟ جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں؟ کیا سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا تھا۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں، اسے چھوڑ دیں، سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے؟ جو باتیں آپ بتا رہے ہیں ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں، کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے؟

انہوں نے مزید کہا ہے کہ آرٹیکل 181 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں، آپ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں، نظر ثانی کے گراونڈز نہیں بتا رہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا؟ جس پر وکیل حارث عظمت نے کہا کہ مجھے کنفرم نہیں ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ عدالت کے سامنے کھڑے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کو کنفرم نہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے یہ بھی بتانا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن باؤنڈ نہیں ہے کہ ہمارے فیصلے پر عمل درآمد کرے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد کیے بغیر آپ نظر ثانی کیسے فائل کر سکتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کیا آپ نے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے؟ آپ ہاں یا ناں میں اس سوال کا جواب دیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے ایک پیرا گراف کی حد تک عمل کیا ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کیا یہ آپ کی منشا یا مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے؟

الیکشن کمیشن اس کیس میں پارٹی کیسے بن سکتا ہے؟ جسٹس عائشہ ملک

جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں؟ آپ کو مرکزی کیس میں بھی کہا گیا تھا کہ آپ کا رویہ ایک پارٹی کا ہے، آپ نے جس فیصلے پر عمل نہیں کیا اس پر نظرثانی مانگ رہے ہیں؟ آپ کا کام الیکشن کروانا ہے، آپ اس کیس میں پارٹی کیسے بن سکتے ہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ مجھے پشاور ہائیکورٹ میں فریق بنایا گیا تھا اس لیے میں سپریم کورٹ آیا، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کی، آپ کو تشریح پسند نہیں آئی اور دوبارہ سپریم کورٹ آگئے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا ہے؟ اگر الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عمل کیا ہے تو ٹھیک ورنہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہمارے فیصلے پر عمل ہو گا؟

وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ہم فیصلے پر جزوی طور پر عمل کر چکے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ فیصلے پر عملدرآمد میں پک اینڈ چوز نہیں کر سکتے، جو حصہ آپ کو پسند آیا آپ نے اس پر عمل کیا، جو پسند نہیں آیا اس پر عمل نہیں کیا۔

جسٹس عقیل عباسی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نہ سن لیں؟ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا، آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست زیر التوا ہے، اگر آپ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی چلائی جائے تو آپ نظرثانی مانگیں گے؟

الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا، آپ سپریم کورٹ کو کہاں لے جا رہے ہیں؟ فاضل جج

وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے کہا کہ ہم نے عدالتی فیصلے پر عمل کر دیا ہے جس پر جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا، ایسی بات نہ کریں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کیس کو چھوڑیں، یہ آپ سپریم کورٹ کو کہاں لے جا رہے ہیں؟ کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں تو کیا وہ کہے گا بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی پٹیشن پڑھی، اس کے قابل سماعت ہونے پر میرا سوال ہے، جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ آپ کیخلاف توہین عدالت کی درخواست اٹھالیں تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے؟

بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے باضابطہ منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے۔

جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل کا نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کی منظوری کے فیصلے سے اختلاف

جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے منظوری کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا۔

11 ججز نے اکثریت سے فریقین کو نوٹس جاری کیے اور بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کی درخواست بھی اس کیس کے ساتھ ہی سنی جائے گی۔