فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر فیصلہ محفوظ

Published On 05 May,2025 01:58 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں کی سماعت کی، بنچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا اور 9 مئی کے ملک گیر پرتشدد واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 9 مئی کو دن 3 بجے سے شام تک ملک بھر میں 39 مقامات پر حملے ہوئے، جن میں جی ایچ کیو، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس، ایئر بیس میانوالی اور آئی ایس آئی کے دفاتر شامل ہیں، پنجاب میں 23، خیبر پختونخوا میں 8، سندھ میں 7 جبکہ بلوچستان میں ایک واقعہ پیش آیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا لوگ جناح ہاؤس کا گیٹ پھلانگ کر گئے یا اندر سے کھولا گیا؟ اگر اندر سے کسی نے دروازہ کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا، اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں اس بارے میں چیک کرنے کے بعد ہی بتاؤں گا کہ کیسے ہوا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ جرم کی نیت سے ہی ہوا تھا؟ کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی؟ کیا ہو سکتا ہے نیت احتجاج کی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا ہو؟ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے تھا مگر کیا گیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ 9 مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا، تمام واقعات اتفاقیہ نہیں تھے، بلکہ منظم منصوبہ بندی کے تحت کئے گئے اور اگر اس روز لاہور پر بیرونی جارحیت ہوتی تو ہم جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا فوج نے اپنے کسی افسر کے خلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟

جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جناح ہاؤس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی کی، کور کمانڈر لاہور سمیت تین اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات کے ریٹائر کیا گیا، بغیر پنشن ریٹائر ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک بریگیڈیٹر اور لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں، جبکہ 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجی کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہو، محکمانہ کارروائی 9 مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ تو واضح کرتا ہے کہ محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی۔

سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل کو تنبیہ کی کہ وہ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے 9 مئی واقعے کے میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی کیونکہ اس سے ٹرائل اور اپیل پر اثر پڑے گا اور کچھ سوالات کے جوابات شاید ممکن نہ ہوں، جیسے کیا کور کمانڈر لاہور بطور گواہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہوئے؟

عدالت نے اس موقع پر آرمی ایکٹ میں ترامیم، اپیلوں کے طریقہ کار اور فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں کی گئی جبکہ آئین میں 26 ویں ترمیم ہو چکی ہے؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں ہو پاتی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 86 افراد اب تک اپیلیں دائر کر چکے ہیں جبکہ باقی مجرمان کو اپیل کیلئے وقت میں نرمی دی جائے گی۔

انہوں نے عدالت سے وقت کی کمی پر شکایت کرتے ہوئے کہا کہ آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے، جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات میں گزر گئے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں، ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے، لوگوں نے خود کو آگ لگائی اور خود سوزیاں کیں، کسی نے بھی اس وقت املاک کو آگ نہیں لگائی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن کئی مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں بھی نہیں آیا کہ عوامی املاک کو نقصان پہنچائیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، عدالت نے کہا کہ مختصر فیصلہ اسی ہفتے کے دوران سنایا جائے گا۔