بجٹ پر تجاویز رپورٹ سینیٹ میں پیش، اپوزیشن کا اعتراض، حکومت کی وضاحتیں

Published On 21 June,2025 02:02 pm

اسلام آباد: (مریم الٰہی) بجٹ پر تجاویز رپورٹ سینیٹ میں پیش کر دی گئیں جس پر اپوزیشن کی جانب سے اعتراض سامنے آیا ہے اور حکومت وضاحتوں کیساتھ اسے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی زیرصدارت سینیٹ کا اجلاس ہفتے کو منعقد کیا گیا جس میں بجٹ 26-2025 سے متعلق اہم بحث دیکھنے میں آئی، سینیٹ اراکین نے بجٹ سے متعلق تجاویز کی رپورٹ سینیٹ میں پیش کی۔

اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ فنانس کمیٹی کو تجاویز دی گئیں لیکن اس بات کی وضاحت نہیں دی گئی کہ ان میں سے کون سی تجاویز شامل کی گئیں اور کن پر اعتراضات سامنے آئے۔

شبلی فراز نے زور دیا کہ فنانس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن سے ہونا چاہیے تھا اور بجٹ میں عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، حکومت نے اپنے اخراجات کم نہیں کیے اور معیشت کو قرضوں کے سہارے چلایا جا رہا ہے جو کہ پائیدار بنیاد نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کمیٹی کی کارروائی پر عدم شفافیت کو ”لات مارنے کے مترادف“ قرار دیا۔

اس موقع پر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے سفارشات پر مشتمل رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تمام جماعتوں نے سفارشات کی تیاری میں مثبت کردار ادا کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کئی تجاویز بشمول سولر پینلز، سٹیشنری آئٹمز اور سٹیل سیکٹر پر ٹیکسوں کو مسترد کیا گیا جبکہ ہومیوپیتھک مصنوعات پر سیلز ٹیکس صفر کرنے کی سفارش دی گئی، حکومت نے کمیٹی کی 52 فیصد سفارشات کو تسلیم کر لیا۔

اس موقع پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کی تیاری میں تمام سینیٹرز نے بامعنی مشاورت کی۔

انہوں نے بتایا کہ 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ کمانے والوں کا انکم ٹیکس 2.5 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، سولر پینلز پر ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 592 ارب سے بڑھا کر 716 ارب روپے کر دیا گیا ہے اور ایف بی آر سے متعلق قانون میں سیف گارڈز شامل کیے گئے ہیں، حکومت کا مقصد صرف معاشی استحکام نہیں بلکہ عوامی فلاح بھی ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ تمام اراکین کو فراہم کی جانی چاہئیں تاکہ وہ پڑھ کر حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کر سکیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب رپورٹ دیکھی ہی نہیں گئی تو منظوری کیسے دی جا سکتی ہے۔

سینیٹر منظور کاکڑ نے حکومت کی جانب سے تجاویز تسلیم کرنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھنے والی قوم ہیں۔

سینیٹر دوست محمد خان نے فاٹا کے مسائل کو نظرانداز کیے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ موجودہ حکومت فاٹا کی ٹیکس استثنیٰ کو ختم کر رہی ہے، جو قابل افسوس ہے۔