اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ بیٹی کی پنشن شادی کی حیثیت پر نہیں، حق کی بنیاد پر دی جائے گی۔
جسٹس عائشہ ملک کا تحریر کردہ 10 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا گیا، فیصلے میں کہا گیا کہ پنشن سرکاری ملازم کا قانونی حق ہے، خیرات نہیں، خواتین کی پنشن کا انحصار صرف مالی ضرورت پر ہونا چاہیے، نہ کہ شادی کی حیثیت پر۔
سپریم کورٹ نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے والے سرکلر کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے کہا کہ سندھ حکومت کا 2022 کا امتیازی سلوک والا سرکلر غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے، پاکستان کا بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کے باوجود صنفی مساوات میں بدترین رینکنگ پر ہونا باعثِ افسوس ہے۔
درخواست گزار (طلاق یافتہ بیٹی) نے والد کی پنشن دوبارہ شروع کرنے کی درخواست دی تھی، سندھ ہائی کورٹ کے لاڑکانہ بنچ نے درخواست گزار کی پنشن کی منظوری دی، سندھ ہائیکورٹ فیصلہ کیخلاف سندھ حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور قرار دیا کہ پنشن خیرات یا بخشش نہیں بلکہ آئینی اور قانونی حق ہے، بیٹی کی پنشن کو شادی کی حیثیت سے مشروط کرنا آئین کے آرٹیکل 9، 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے کہا کہ سرکلر قانون کی تشریح نہیں بلکہ اس میں غیر قانونی شرط شامل کر رہا ہے، پنشن کا حق بنیادی آئینی حق ہے، سرکاری تاخیر جرم کے زمرے میں آتی ہے، عورتوں کو مالی طور پر خودمختار تصور نہ کرنا آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ نے اظہار افسوس کیا کہ پاکستان کا خواتین کی برابری میں عالمی درجہ 148 میں سے 148 ہے۔