اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) اپریل 2022ء کے بعد سے جہاں پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی اسے ایک کے بعد ایک مشکل کا شکار کرتی رہی وہیں پی ٹی آئی کے حامیوں یا نرم گوشہ رکھنے والوں کے تخمینے اور اندازے بھی غلط نکلے۔
وہ پاکستان تحریک انصاف جو 8 فروری کو کلین سویپ کا دعویٰ کرتی ہے، اب ایوانوں سے اس کا صفایا شروع ہو چکا ہے، پاکستان تحریک انصاف نے ایک تو بلنڈرز پر بلنڈرز کئے دوسری جانب اس کے حمایتیوں نے ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی کہ نجانے کون سا انقلاب دستک دے رہا ہے، کئی مرتبہ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مقتدرہ پی ٹی آئی کے ساتھ بات کرنا چاہتی ہے مگر بانی پی ٹی آئی نہیں مان رہے، کچھ حلقوں نے یہ منظر کشی بھی کی کہ بیک ڈور معاملات طے پا چکے ہیں، بس خان صاحب بنی گالہ شفٹ ہوں گے اور موجودہ حکومت کی سختی آنے والی ہے۔
حکومت کے ناقدین اور مخالفین میں سے بھی کچھ کا خیال رہا ہے کہ یہ نظام نہیں چل پائے گا، معیشت نہیں سنبھل رہی، پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے، معاشی اعداد و شمار صرف کہنے کی حد تک ہیں، لوگ کسی بھی وقت سڑکوں پر نکل سکتے ہیں، پھر کہا گیا کہ امریکا میں حکومت کی تبدیلی کے بعد یعنی 2025ء کے آغاز ہی سے پاکستان کے سیاسی معاملات بھی تبدیل ہونے شروع ہو جائیں گے، تمام امیدیں صدر ٹرمپ سے وابستہ کر لی گئیں۔
ماحول ایسا بنا دیا گیا کہ خود حکومت میں بیٹھی کچھ شخصیات یہ سمجھنے لگیں کہ واقعی صدر ٹرمپ کے آنے سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا دباؤ آسکتا ہے، مگر سب کچھ الٹ ہو گیا کیونکہ ایسے اندازے لگاتے ہوئے زمینی حقائق کو نظر انداز کیا گیا تھا، امریکا پاکستان کی مقتدرہ کے ساتھ چلنے کا عادی ہے اور اس کا یہ تعلق ماضی میں خوشگوار رہا ہے۔
اس مرتبہ بھی صدر ٹرمپ نے پاکستان کی مقتدرہ کے ساتھ بہترین تعلقات استوار رکھنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ امریکی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ کئی شعبوں میں شراکت داری کی بھی خواہاں ہے، پاکستان تحریک انصاف نے جن تین عوامل کے ساتھ اپنی امیدیں وابستہ کیں ان میں صدر ٹرمپ، پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں اور عوام کا سڑکوں پر نکلنا تھا، مگر ان تینوں کے محرکات تبدیل ہو کر رہ گئے۔
ملک کی اعلیٰ عدالتیں جو افتخار محمد چودھری کے دور سے جوڈیشل ایکٹوازم کے باعث کسی بھی حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کرتی رہیں اور حالیہ برسوں میں پاکستان تحریک انصاف کو کچھ بنچز سے جس طرح ریلیف مل رہا تھا، 26 ویں آئینی ترمیم نے یہ سب کچھ ختم کر کے رکھ دیا ہے، اس طرح عدالتی محاذ سے حکومت کیلئے تمام چیلنجز تقریباً ختم ہوگئے اور پاکستان تحریک انصاف کی ایک بڑی امید بھی ختم ہوگئی ہے۔
مقتدرہ نے پہلے روز سے بڑا واضح مؤقف سامنے رکھا تھا کہ 9 مئی کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، پاکستان تحریک انصاف سے کوئی براہ راست بات چیت نہیں ہوگی، اگر بات چیت کرنی ہے تو پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ بیٹھے اور ایسا کرنے پر بھی 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگنا ہوگی، پی ٹی آئی حالات کو معمول پر لانے کے تمام مواقع گنواتی رہی اور حکومت کے ساتھ بیٹھنے کی آفرز کو ٹھکراتی رہی۔
9 مئی کے واقعات کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیا، معافی مانگنا تو دور کی بات الٹا اداروں پر الزام لگا دیا، جیل سے بانی پی ٹی آئی کے ایکس ہینڈل اور سوشل میڈیا کیلئے ہدایات جاری ہوتی رہیں اور اداروں کے خلاف مواد پوسٹ ہوتا رہا، تحریک انصاف کا اندازہ تھا کہ مقتدرہ کو دباؤ میں لا کر انہیں مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیابی مل جائے گی مگر اس کا اثر الٹا ہوا، نہ تو ٹرمپ مدد کو آئے نہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن سڑکوں پر نکل سکے، معیشت چلتی دکھائی دینے لگی، ملک ڈیفالٹ کے بحران سے باہر نکل آیا، سول ملٹری تعلقات (ن) لیگ کی ماضی کی حکومتوں کے برعکس مؤثر انداز میں چل رہے ہیں۔
مقتدرہ کو شاید ہمیشہ سے ایسے ہی نظام کی ضرورت تھی جس میں سول ملٹری قیادت ہر معاملے پر ایک پیج پر ہوں، باقی کسر معرکہ حق میں بھارت کے خلاف افواج پاکستان کی شاندار کامیابی نے پوری کر دی، عوام کی بڑی تعداد سیاسی بیانیے کو پس پشت ڈالتے ہوئے افواج کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔
نومبر 2024ء کے بعد ریاست ایسی ڈیٹرنس قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ملک بھر میں احتجاج کی کال دینے کے باوجود پانچ اگست کو اپنے کارکنوں کو باہر نہ نکال سکی، پانچ اگست کی کال کو خود پاکستان تحریک انصاف کے اپنے لوگ ناکام قرار دے چکے ہیں، پی ٹی آئی کے کارکنوں میں مایوسی اس لئے بھی پائی جاتی ہے کہ اس کی قیادت خود ایک دوسرے کو کمپرومائز ہونے کے طعنے دے رہی ہے۔
ایوانوں میں موجود لیڈر شپ کے خلاف 9 مئی کے مقدمات کے فیصلے آنا شروع ہو چکے ہیں، دس دس سال کی سزاؤں کے ساتھ نا اہلیوں کا طوفان چل پڑا ہے، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور سینیٹ میں شبلی فراز سمیت مزید 9 ارکان کو نا اہل کر دیا گیا ہے، پاکستان تحریک انصاف سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کیلئے اعظم سواتی جبکہ قومی اسمبلی میں محمود خان اچکزئی کے ناموں پر غور کر رہی ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے اب نہ تو بیرون ملک سے کسی دباؤ کی امید باقی ہے، ایوانوں سے بھی پی ٹی آئی کی بڑی آوازیں خاموش ہو رہی ہیں، سڑکوں پر نکلنے کے امتحان میں بھی پاکستان تحریک انصاف پانچ اگست کو مکمل نا کام رہی، آئینی بنچ بننے کے بعد پی ٹی آئی اب سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کی جانب بھی نہیں دیکھ سکتی، جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔
مقتدرہ کو بار بار چڑا کر دوریاں اتنی بڑھا لی ہیں کہ مستقبل قریب میں کسی قسم کی انگیجمنٹ کی توقع بھی نظر نہیں آرہی، تحریک انصاف کے اپنے کلچر نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ پارٹی کے اندر نہ تو کوئی رہنما الزامات سے محفوظ ہے نہ ہی کوئی سوشل میڈیا سپورٹر، اس صورتحال کا خمیازہ بانی پی ٹی آئی کو بھگتنا پڑ رہا ہے، ان کی مشکلات کسی طور کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔