پشاور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرز کی تقرری روک دی

Published On 12 August,2025 02:42 pm

پشاور: (ذیشان کاکاخیل) پشاور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نئے اپوزیشن لیڈرز کی تقرری روک دی، عمر ایوب اور شبلی فراز کے خلاف مزید کارروائی سے بھی روک دیا۔

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس خورشید اقبال پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے عمر ایوب اور شبلی فراز کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

بیرسٹر گوہر نے مؤقف اپنایا کہ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف دو درخواستیں دائر کی ہیں، 5 اگست کو اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی کی سیٹ کو خالی قرار دے دیا گیا، عدالت نے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں ان کیسز کو سننے کا کیا پشاور ہائی کورٹ کا دائر اختیار ہے یا نہیں؟

عدالت عالیہ کو وکیل گوہر علی خان نے آگاہ کیا کہ آرٹیکل 63 ون ایچ کے تحت درخواست گزار کو نااہل کیا گیا، الیکشن کمیشن کا ممبران کو نااہل کرنا غیر قانونی اور غیر موثر ہے، رولز آف بزنس کے 67 (2) کے تحت اپوزیشن لیڈر کا انتخاب کیا جاتا ہے، 60 دن گزرنے کے بعد الیکشن کمیشن کسی کو نااہل نہیں کرسکتا ہے۔

اپنے دلائل میں بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ سیکشن 213 کے تحت صرف الیکشن کمیشن ایڈمنسٹریٹو اختیار استعمال کرسکتا پے، کسی ممبر کو نااہل کرنے کے لیے سپیکر کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجنا لازمی ہے، 14 مختلف طریقوں اور خلاف وزریوں پر ممبر کو نااہل کیا جاسکتا ہے۔

دلائل جاری رکھتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ عدالت مناسب سمجھے تو اس کیس کو لارجر بنچ کو دے دے، الیکشن کمیشن ایک غلطی کر رہا ہے، 9 مئی ایک افسوسناک واقعہ ہوا ہے، اے ٹی سی میں 88 مقدمات درج گئے ہیں، ایم این اے عبد الطیف کو دس سال کی سزا سنائی گئی ، عمر ایوب اور دیگر رہنمائوں کے خلاف عبد الطیف کا کیس بنیاد بنا کر کارروائی کی گئی ہے، یہ وہ غلطی ہے جو الیکشن کمیشن کر رہا ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے خود کو مس گائیڈ کیا ہے، آرٹیکل 63(2) کی غلط تشریح کی گئی ہے، الیکشن کمیشن سید یوسف رضا گیلانی کے کیس کا حوالہ دے رہا ہے جو یہاں ٹھیک نہیں ہے، سید یوسف رضا گیلانی کا کیس اس کیس سے بالکل مختلف تھا، ہماری درخواست ہے الیکشن کمیشن کو مزید کارروائی سے روک دیں۔

عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 اگست تک جواب طلب کر لیا۔