ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے سے انتظامی اخراجات کم، گورننس بہتر ہوگی: میاں عامر محمود

Published On 23 October,2025 11:57 am

لاہور: (دنیا نیوز) چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنا دیا جائے تو پاکستان میں 33 صوبے بنیں گے، ہر ڈویژن میں پہلے ہی پوری گورنمنٹ موجود ہے، اخراجات کم ہو جائیں گے اور گورننس بہتر ہوگی۔

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب لاہور میں ایپ سپ کے زیر اہتمام آگاہی سیمینار "2030 کا پاکستان: چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں" سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ  تمام ممالک میں وفاقی، صوبائی اور لوکل لیول پر گورننس بنتی ہے، ہمیں پاکستان میں بدقسمتی سے لوکل گورنمنٹ بہت کم دیکھنے کو ملی، ملک میں جب بھی جمہوریت آتی ہے لوکل گورنمنٹ ختم کر دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بات کرتےہیں صوبے کس طرح بننے چاہئیں اور ان کی باؤنڈریز کیا ہوں گی، ہم کہتے ہیں آپ ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیں، ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیا جائےتو پاکستان میں 33صوبے بنیں گے، ہر ڈویژن کی باؤنڈریز پہلے سے موجود ہیں۔

ہر ڈویژن میں پہلے ہی پوری گورنمنٹ موجود

ان کا کہنا ہے کہ آج ہم نئے صوبے بنائیں اور باؤنڈریز کے تعین میں جائیں تو اسی جھگڑے میں زندگی گزر جائے گی، ڈویژن میں پہلے ہی پوری گورنمنٹ موجود ہے، اگر آپ ڈویژن کو صوبہ بناتے ہیں تو کمشنرچیف سیکرٹری اورآرپی اوآئی جی پولیس بن سکتا ہے، ان کے نیچے کام کرنے والی ٹیم موجود ہے۔

 انہوں نے یہ بھی کہا کہ  سات بنیادی ستونوں پر ایک ملک کی بنیاد رکھی جاتی ہے، پاکستان کے 4صوبے ہیں، ورلڈ بینک کی رپورٹ بنی جس میں بتایا گیا پاکستان جب 100سال کا ہوگا تو چیلنجز کیا ہوں گے، کمزور ادارے 100سال بعد ہمارے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوں گے، کمزور اداروں کے ساتھ کرپشن بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ ہم نے 78سالوں میں صرف 5 کیپیٹل سٹیز بنائے، کراچی کا حال ہم سب کو معلوم ہے، کراچی سے باہر نکل کر دیکھیں تو پورا سندھ کچی آبادی جیسا منظر پیش کرتا ہے، فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے، فیصل آباد میں کوئی ڈھنگ کا ہسپتال یا سکول موجود نہیں ہے۔

لاہور میں ہر سال آبادی بڑھ رہی، نقل مکانی زیادہ

چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ لاہور یا دوسرے کیپیٹل سٹیز میں نقل مکانی بہت زیادہ ہوتی ہے، لاہور میں ہر سال آبادی بڑھ رہی ہے، لاہور کو جس طرح ترقی کرنی چاہئے اس طرح نہیں کررہا۔

انہوں نے بتایا کہ چین کے 31صوبے ہیں، بھارت ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا، بھارت میں 9صوبے تھے اب 38صوبے ہیں، انڈونیشیا کی آبادی ہمارے قریب قریب ہے لیکن ان کے34صوبے ہیں، نائیجیریا کے 27،برازیل کے36صوبے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بنگلادیش اپنی گورننس کو ڈسٹرکٹ لیول پر اختیار دیتا ہے، روس کے 46صوبے ،میکسیکوکے31صوبے ہیں، باقی دنیا کس طرح چل رہی ہے اورہم یہاں کیا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ جب پہلی مردم شماری ہوئی تو پاکستان کی آبادی سواتین کروڑ تھی، اس وقت پاکستان کی آبادی تقریباً 25کروڑ سے زائد ہے، پاکستان کے پہلی مردم شماری کے وقت 4 صوبے تھے اب بھی 4 ہیں۔

پنجاب ملک ہو تو دنیا میں صرف 12 ممالک سے چھوٹا ہوگا

ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کی آبادی صرف 2کروڑ تھی اس وقت لاہور شہر بھی اس سے زیادہ آبادی ہی رکھتا ہے، آج پنجاب کی آبادی 13کروڑ ہے، پنجاب اگر ایک ملک ہوتو دنیا کے صرف 12ملک اس سے بڑے ہوں گے، پنجاب دنیا کے بڑے ممالک میں ایک ملک بن سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ سندھ آج اگر ایک ملک ہوتو اس سے بڑے ملک 31ہوں گے، خیبرپختونخوا اگر ملک ہوتو 41ممالک ایسے ہوں گے کو خیبرپختونخوا سے بڑے ہوں گے، دنیا میں 172ممالک ایسے ہیں جن کا رقبہ بلوچستان سے کم ہے۔

مینجمنٹ ٹھیک نہیں تو فائدہ اور نقصان دیکھنا چاہئے

انہوں نے کہا کہ ہماری مینجمنٹ ٹھیک نہیں تواس کا فائدہ اورنقصان دیکھنا چاہئے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز میں 167ممالک کا سروے ہوا ہم 140ویں نمبر پر ہیں، ہم ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 168نمبر پر ہیں، رول آف لا انڈیکس میں 142ممالک کے سروے میں ہم 129ویں نمبر پر ہیں۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ گلوبل ہنگرانڈیکس میں ہمارا 109واں نمبر ہے، ہمارے ملک میں 44فیصد بچوں کی اسٹنٹنگ گروتھ ہورہی ہے، 15سال بعد ہماری آدھی آبادی ایسی ہوگی جس کی اسٹنٹنگ گروتھ ہوئی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ، بھارت میں صرف 2ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں، شاید اس سے بھی کم ہیں، میں وہ آج وہ بات کررہا ہوں جس سے کسی کی بہتری ہوسکتی ہے، ہر کوئی اپنی اپنی جگہ سوچے کہ ہم مسائل کس طرح حل کر سکتے ہیں۔

بھارت میں ہر الیکشن پر ایک یا دو نئے صوبے بن جاتے

میاں عامر محمود نے کہا کہ میں مستقبل کی بات نہیں کررہا، یہ وہ نقصان ہے جو ہوچکا ہے، ہم نے ان مسائل سے کیسے نکلنا ہے وہ سوچنا ہوگا، بھارت میں ہر الیکشن پر ایک یا دو نئے صوبے بن جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب آندھرا پردیش اورتلنگانہ الگ الگ ہوئے، تقسیم کے وقت آندھرا پردیشن کی فی کس آمدن 93ہزار بھارتی روپے تھی، تلنگانہ کی فی کس آمدن 124ہزار بھارتی روپے تھی، 10سال بعد آندھرا پردیش کی فی کس آمدن بڑھ کر 268ہزاربھارتی روپے ہوگئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آندھرا پردیشن کی 3گنافی کس آمدن بڑھ گئی، تلنگانہ کی 10سال بعد فی کس آمدن بڑھ کر 3لاکھ56ہزار بھارتی روپے ہوگئی، تلنگانہ کی 4گنا فی کس آمدن بڑھ گئی، بھارت کے صوبوں میں پچھلے 10سال میں ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بھی بہتری ہوئی۔

بھارت میں اسٹیٹ جی ڈی پی کیلکولیٹ ہوتی

چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ بھارت میں اسٹیٹ جی ڈی پی الگ سے کیلکولیٹ ہوتی ہے، ہمارے صوبوں کی جی ڈی پی الگ سے کیلکولیٹ ہی نہیں ہوتی، ہمارے صوبے کیلکولیٹ کرتے ہی نہیں بلکہ جی ڈی پی فیڈرل لیول پر کیلکولیٹ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے مسائل اس وجہ سے ہیں کہ ہمارے لیڈر کسی نہ کسی اوردروازے سے آتے ہیں، پبلک سپورٹ اور آرگینکلی کسی بھی لیڈر نے گرو نہیں کیا، کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں آیا جس نے کہیں پرفارم کیا ہو۔

انہوں نے بتایا کہ لوگ کہتے ہیں چھوٹے صوبے بننے سے اخراجات بڑھ جائیں گے، آپ کو یہ بات سن کر خوشی ہوگی کہ نئے صوبوں سے اخراجات کم ہوجائیں گے، نئے صوبے بننے سے اخراجات بڑھنے کے بجائے کم ہوجائیں گے، نئے صوبے بننے سے ہمارے ایڈمنسٹریٹو اخراجات کم ہوجائیں گے۔

کوئی لیڈر ایسا نہیں جو پاپولر ہو کر گورنمنٹ میں آیا

انہوں نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے پاپولر لیڈر تھے، ووٹ لے کر آئے، شہید ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو کسی جگہ احتجاج نہیں ہوا، نوازشریف دوتہائی اکثریت سے حکومت میں آئے، اتنے ووٹ آج تک کسی کو نہیں ملے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف کی گورنمنٹ ختم کی گئی، ان کو نکال دیا کوئی احتجاج نہیں ہوا، بانی پی ٹی آئی کو نکال دیا حقیقت میں کچھ نہیں ہوا، لوگ اس طرح سے لیڈر کے ساتھ جڑے ہوئے نہیں، کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں جو پہلے پاپولر ہوا، پھر گورنمنٹ میں آیا، جو گورنمنٹ میں آکر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ وسائل کی وجہ سے کام کرہی نہیں سکتا۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ ترکیے میں ایک وزیراعظم کو پھانسی دی گئی وہاں بھی مارشل لا لگے، ترکیے میں پھر ایک لیڈرلوکل گورنمنٹ میں پرفارم کرکے اوپر آیا، لوگوں نے اس کو ووٹ دیا اوروہ پاپولر لیڈر الیکشن جیت کرحکومت میں آگیا، ترکیے میں اس لیڈر کے خلاف سازش کی کوشش ہوئی تو لوگ اس کیلئے باہر نکلے۔

ہمارے لیڈرز کے پاس عوام کی سپورٹ نہیں

انہوں نے کہا کہ کہیں ڈیموکریٹک سسٹم ہے تو سیاسی لیڈر کے پاس بندوق نہیں بلکہ عوام کی سپورٹ ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے لیڈرز کے پاس عوام کی سپورٹ نہیں کیونکہ یہ کسی پراسیس سے ہوکر نہیں آئے۔

انہوں نے بتایا کہ شروع میں بھارت میں بھی مطالبے ہوئے کہ زبان کی بنیاد پر صوبے بنائیں، ہم بھی مشرقی پاکستان میں اردونافذ کرنا چاہ رہے تھے،ہنگامے ہوئے، بھارت میں کمیشن بنا پھر صوبے بنتے چلے گئے، بھارت میں ایڈمنسٹریٹو اورایتھنک بیسز پر صوبے بنتے ہیں، بھارت میں اب جہاں ضرورت ہوتی وہ صوبے بنادیتے ہیں۔

لوکل گورنمنٹ ہونی چاہئے

انہوں نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی نیا کام کرنے سے پہلے ڈرتے ہیں، لوکل گورنمنٹ ہونی چاہئے، ہمارے پاس لوکل گورنمنٹ بنی ہی نہیں، ہم نے 78سال گزار دیئے کئی قانون بنے، ہماری پولیٹیکل لیڈر شپ میں ان سکیورٹی ہے۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ ہمیں ایسی سنجیدہ سیاسی لیڈرشپ چاہئے جو پرفارمنس کی بنیاد پر آگے آئے، جو پرفارمنس پر آگے آئے گا وہ اپنا اختیار بانٹنے کی بات کرے گا، آج ہم جو کچھ بھی آئین میں لکھ دیں، آج لیڈرشپ میں ان سکیورٹی بہت زیادہ ہے وہ اپنے اختیارات تقسیم ہی نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو جو سب سے کمزور ایم پی اے ملا اس کو وزیراعلیٰ پنجاب بنادیا، یہاں پولیٹیکل لیڈر شپ کی ان سکیورٹیز ہیں، پنجاب پاکستان کا 53فیصد ہے، یہاں لیڈرشپ یہ سوچتی ہے کہ پنجاب کوئی ایسا بندا آیا جس نے کام کردیا اور وہ پاپولر ہوگیا تو میرا کیا ہوگا، یہ مسئلہ کسی ایک پارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ سب کے ساتھ ہے۔

چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ ہمیں ایک میچور لیڈرشپ چاہئے جو دور دور تک نظر نہیں آرہی، یہاں میچورلیڈرشپ کے آنے کا کوئی پراسیس ہی موجود نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کی پش کے بغیر کوئی لیڈر آگے نہیں آسکتا، سسٹم ہی اجازت نہیں دیتا۔

لیڈر شپ سامنے لانے والا سسٹم بنانا ہے

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا سسٹم لانا ہے جس میں لیڈر شپ آگے آئے، صوبے چھوٹے بن جائیں تو کراچی اورلاہور بہت بڑا شہر ہے، امریکا میں ایک اسٹیٹ کیلیفورنیا اورایک آرکنساس ہے فرق نکال کر دیکھ سکتے ہیں، آرکنساس کا انحصار مکمل زراعت پر ہے، انڈسٹری بھی کوئی بڑی نہیں، کیلیفورنیا آپ دیکھ لیں کہ وہ کیسا ہے، جس ماحول میں ہم جاکر رہنا چاہیں وہاں رہ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت وفاق صوبے کو کچھ دینے کیلئے تیار نہیں اور صوبہ لوکل گورنمنٹ کو اختیارات منتقل کرنے کیلئے تیار نہیں، ایک قومی مزاج بن گیا ہے کہ اپنے اختیارات کواپنے سینے سے لگا کررکھنا ہے، ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ اختیارات کو تقسیم نہیں ہونے دینا۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ لیڈرشپ آرگینکلی ڈویلپ ہوگی تو شاید اس میں اختیارات منتقل کرنے کا حوصلہ ہو، پرویز مشرف کے دور میں میں لوکل گورنمنٹ کا حصہ تھا، پہلی ہی پولیٹیکل گورنمنٹ نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 99ترامیم کردیں، میں پرویز مشرف کے پاس گیا اور کہا ساری کی ساری ترامیم ناظم کے خلاف ہیں، تو مجھے جواب ملا وہ بھی منتخب ہوکر آئے ہیں انہوں نے بھی تو کچھ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ہی گورنمنٹ ہے جو آپ کی خدمت کرتی ہے وہی ہمارے سسٹم میں موجود نہیں، آج ہماری تمام مشکلات کا حل سنجیدہ اورآرگینکلی طریقے سے آئی لیڈرشپ ہے، نریندرمودی نے اپنے صوبے میں کام کیا اس لیے اس کی گروتھ ہوئی، بھارت میں نریندر مودی نے جب مہم شروع کی تو پورا کارپوریٹ انڈیا اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا، ہمیں بھی ایسا سسٹم ایسا بنانا ہے جس میں لیڈرشپ اورپبلک کی گروتھ ہوسکے۔