اسلام آباد: (ویب ڈیسک) 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد سال 2025 عدلیہ کی آزادی کیلئے بدتر سال کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے۔
پورے سال کے دوران انتظامیہ اعلیٰ عدلیہ پر حاوی رہی ہے، 26 ویں آئینی ترمیم نے پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس آف پاکستان منتخب کر سکے۔
تاہم حکومت تین سینئر ججوں کو نظر انداز کرنے میں کامیاب رہی اور جسٹس امین الدین خان کو آئینی بنچوں کے سربراہ کے طور پر نامزد کر دیا، آئینی بنچوں کیلئے حکومت کے ہم خیال ججوں کی اکثریت کو نامزد کیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم تین رکنی ججوں کی کمیٹی نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کو ترجیح ہی نہیں دی۔
آئینی بنچ نے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی توثیق کر دی، بنچ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی الٹ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی 8 فروری کے انتخابات کے بعد مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی حقدار ہے۔
اس سے موجودہ حکومت کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل گئی، حکومت نے مختلف ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کے تبادلے کا عمل شروع کیا۔
ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی تین ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلے پر اپنی رضامندی ظاہر کر دی۔



