سموگ سے بچاؤ کے اقدامات ناکافی، ایئر کوالٹی انڈیکس نے خطرے کی لال بتی جلا دی۔ فضا میں زہریلے اور آلودہ ذرات کی سطح بڑھنے سے ماسک کا استعمال بھی بے سود ہو جاتا ہے۔
لاہور: (دنیا نیوز) شہر لاہور سموگ کی زد میں ہے جو اب ایک روگ بن چکا ہے، مگر اقدامات کی بجائے انتظامیہ اور حکام ماسک بانٹنے میں مصروف ہیں۔ دھند اور آلودگی کا مرکب سموگ ہوا میں زہریلے مادے کے بڑھ جانے سے وجود میں آتی ہے۔ اے کیو آئی انڈیکس کا ہندسہ اگر 100 کی سطح سے نیچے رہے تو فضا انسانی زندگی کیلئے صحت بخش رہتی ہے۔ 150 کی سطح سے اوپر بیمار افراد کے لئے خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ 200 کی سطح عبور کرتے ہی ہوا انسانی استعمال کیلئے مضر صحت قرار دے دی جاتی ہے۔ ماہرین کی جانب سے 300 سے زائد پر ہیلتھ الرٹ جبکہ 500 سےزائد سطح پر ہنگامی صورتحال کا نفاذ تجویز کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے دنیا کے آلودہ ترین شہر نئی دہلی کا ذکر کیا جائے تو وہاں آلودگی کی شرح 1000 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کی انتہائی حد بھی عبور کر چکی ہے جبکہ لاہور بھی اسی راستے پر گامزن دکھائی دے رہا ہے جہاں 400 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں سالانہ اے کیو آئی مجموعی طور پر 1665 ہے جبکہ نومبر 2016ء میں یہ سطح 300 کا ہندسہ عبور کر گئی تھی۔
طبی ماہرین کے مطابق ہیلتھ ایمرجنسی میں گھروں سے کم سے کم نکلنا چاہیے۔ سکولوں اور دفتروں میں چھٹیاں دینے کے ساتھ کسی بھی قسم کی ورزش یا واک سے بھی قطعی پرہیز ضروری ہے۔ عام شخص کے لئے تو خطرہ موجود ہے ہی، مگر دل اور دمہ کے مریضوں کیلئے آلودگی کی یہ سطح فالج اور موت کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ صورتحال حیران کن نہیں بلکہ پریشان کن ہے۔ طبی ماہرین نے تو سب صاف صاف بتا دیا مگر حکومت کیا کررہی ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ حکومت نے اب تک کیا کچھ کیا؟ کچھ نظر نہیں آ رہا۔