راکٹ اورمصنوعی سیارے تاریخ کے آئینے میں

Last Updated On 07 October,2018 05:45 pm

تحریر: (محمد پرویز اسلم) خلائی پروازیں انسانی تجسس اور سائنسی ترقی کی درخشاں مثال ہیں۔ پرندوں کو فضا میں اڑتے دیکھ کر انسان کے دل میں یہ خواہش بیدار ہوئی کہ وہ بھی بیکراں فضاؤں میں اڑ سکے۔ مدتوں کی خیالی اور ذہنی اڑانوں کے بعد بالآخر 1903ء میں رائٹ برادرز نے نوع انسانی کو ہوائی جہاز کا تحفہ دیا۔

ہوائی جہاز کی ایجاد کے بعد انسان دوردراز کے فاصلے تو آسانی سے طے کرنے لگا لیکن آسمانوں میں بادلوں کے پار کی دنیا کا تجسس برقرار رہا۔ اس کے دل میں ایک نئی جستجو نے سراٹھایا کہ زمین کے باہر کی دنیا کیسی ہے۔ ہمارے اردگرد کے سیارے کیسے ہیں۔ نیز خلا میں سفر کیسے کیا جاتا ہے۔ بیسویں صدی میں سائنسی ترقی کی رفتار کا اندازہ اس طرح ہوتا ہے کہ اگرچہ فضا میں پرواز کے سپنوں اور ہوائی جہاز کی حقیقت کے درمیان کئی صدیاں گزریں لیکن ہوائی جہاز سے راکٹ بننے کے درمیان صرف چند سال کا فاصلہ حائل ہوا۔ 1916ء میں ایک امریکی سائنس دان رابرٹ گوڈارڈ نے اپنا مشہور سائنسی مقالہ دنیا کے سامنے رکھا اور اسی کی بنیاد پر اس نے 1926ء میں رقیق ایندھن والا راکٹ تیار کر دیا۔

راکٹ کی اس ابتدائی شکل نے خلائی راکٹ بننے میں مزید تقریباً31 برس کا وقت لیا۔ چار اکتوبر 1957ء کو خلائی دور کا اس وقت آغاز ہوا، جب روس نے اسپوتنک اول خلا میں داغا۔ آتش بازی میں استعمال ہونے والے راکٹ جو کہ اوپر جا کر رنگ برنگی چنگاریاں منتشر کرتے ہیں، موجودہ راکٹوں کے جدامجد ہیں۔ اگرچہ یہ تقابل بعیدازقیاس معلوم ہوتا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ دونوں کے اصول ایک ہیں۔ ان راکٹوں کی کہانی صدیوں پرانی ہے۔ تاریخ کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ 1232ء کے آس پاس چینیوں نے سب سے پہلے راکٹ کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔ چینیوں کا یہ راکٹ ایک تیر پر مشتمل تھا جس کے اگلے سرے پر ایک ٹیوب میں بارود بھرا رہتا تھا۔ اس بارود میں جب آگ لگائی جاتی تھی تو اس ٹیوب سے خارج ہونے والا دھواں اور گیس تیر کو تیز اڑنے میں مدد کرتی تھی اور یہ تیر بہت دور تک جاتے تھے۔ چین نے اپنے منگول دشمنوں کو ان راکٹوں کی وجہ سے خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس کے تقریباً پانچ صدی بعد ٹیپو سلطان نے میسور کی لڑائی میں انگریزوں کے خلاف کافی بڑے راکٹوں کا استعمال کیا۔ ٹیپو سلطان کا راکٹ چار سینٹی میٹر چوڑی اور 21 سینٹی میٹر لمبی لوہے کی ٹیوب پر مشتمل تھا جس میں بارود بھرا رہتا تھا۔ اس ٹیوب کو ایک لمبے بانس سے باندھ دیا جاتا تھا۔ جب اس بارود میں آگ لگائی جاتی تھی تو یہ بانس کے ساتھ اڑتا ہوا راستے میں آگ برساتا ہوا دشمن پر جا گرتا تھا اور دھماکے کے ساتھ پھٹتا تھا۔ انگریز فوجوں کے لیے یہ ایک نئی چیز اور بلائے ناگہانی تھی۔ ان راکٹوں کی وجہ سے انگریزوں کو بہت نقصان پہنچا تھا۔

بعدازاں جب سر آئزک نیوٹن نے عمل اور ردعمل کا قانون دنیا کو دیا تو اس راکٹ کی کارکردگی سمجھی گئی۔ یورپ میں راکٹ کی ابتدا ولیم کونگریو نے اس زمانے میں کی جب برطانیہ نپولین کی فوجوں سے برسرپیکار تھا۔ اگر کبھی آپ نے کسی کو چپو کی مدد سے کشتی چلاتے دیکھا ہو تو یہ محسوس کیا ہو گا کہ چپو کی مدد سے جب پانی کو پیچھے دھکیلا جاتا ہے تو کشتی آگے بڑھتی ہے۔ یہ عمل اور ردعمل کی ایک مثال ہے جو کہ نیوٹن نے اپنے قانون کے ذریعے سمجھائی تھی۔ راکٹ بھی اس اصول پر پرواز کرتا ہے۔ راکٹ میں بنے ایک مخصوص چیمبر میں ایندھن کو جلایا جاتا ہے۔ اس کے جلنے کی وجہ سے کافی مقدار میں گیس بنتی ہے جس کو ایک پتلے سے نوزل کی مدد سے بہت تیزی سے راکٹ کے پیچھے سے نکالا جاتا ہے۔ یہ گیس نیچے کے رخ نکلتی ہے، اس لیے راکٹ اوپر کی جانب جاتا ہے۔ کسی راکٹ کی پرواز کا منظر اگر آپ نے ٹیلی ویژن پر دیکھا ہو تو راکٹ کے نچلے حصے سے بے پناہ آگ اور گیس نکلتی دیکھی ہو گی۔ ایندھن کے جلنے سے ہی آگ پیدا ہوتی ہے اور گیس بنتی ہے۔ ان کا تیزی سے اخراج ہی راکٹ کو اوپر لے جاتا ہے۔ راکٹ کو خلا میں بھیجنے کے لیے دوسرا اہم مرحلہ اس کو زمین کی کشش سے باہر نکالنا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین کی کشش ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ فضا میں شامل تمام گیسیں زمین کی کشش کی وجہ سے اس کے گرد ایک غلاف کی مانند لپٹی رہتی ہیں۔ کسی بھی چیز کو زمینی کشش کے دائرے سے باہر نکلنے کے لیے بہت تیز پرواز کرنا ہوتی ہے، جس کی رفتار لگ بھگ 11.2 کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ راکٹ کو بھی زمین کی کشش سے آزاد ہونے کے لیے کم از کم اسی رفتار سے اڑنا ہوتا ہے۔ خلائی پرواز کی ابتدا تجسس کی بنیاد پر ہوئی تھی لیکن جوں جوں خلا کے راز ہم پر آشکار ہوئے ہمیں ان کی اہمیت کا احساس ہوتا گیا۔

خلا کی تسخیر کی اہمیت کے مدنظر ہی خلائی تحقیقات نے زور پکڑا۔ خلا میں جا کر انسان نے کائنات کی تشکیل کے راز کو بہتر طور پر سمجھا ہے جس کی وجہ سے اسے زمین کی پیدائش اور اس کے مستقبل کو سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے۔ خلا میں راکٹوں کے جانے کی وجہ ہی سے مصنوعی سیارے وجود میں آئے۔ مصنوعی سیاروں کی مدد سے ترسیل اور خبررسانی کے میدان میں زبردست انقلاب آیا۔ مصنوعی سیاروں کی مدد سے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک فون پر بات کی جا سکتی ہے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے پروگرام دور دراز علاقوں تک سنے جا سکتے ہیں۔ دراصل دنیا کے ممالک کو قریب لانے میں مصنوعی سیاروں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ خلا میں چھوڑا گیا سیارہ ہمارے لیے آنکھ کی مانند کام کرتا ہے، جس طرح کسی اونچی عمارت سے ہم دور تک کا منظر دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح مصنوعی سیارے پر لگے کیمرے ہمیں دور دور کے علاقوں پر نظر رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کی بدولت ہم اپنے جنگلات ، پانی کے ذخائر، قدرتی وسائل اور جغرافیے کا تفصیلی اور تقابلی جائزہ لے سکتے ہیں۔