ستاروں کی دنیا

Last Updated On 08 January,2019 08:37 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) آئن سٹائن کے عام نظریے اور اس میں وہ غیر مرئی قوت یعنی تجاذب کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا ادراک ضروری ہے۔ یہی تجاذب کی قوت کائنات کے نظام کو باہم جکڑے ہوئے ہے اور اسی کی وجہ سے اس کی شکل قائم ہے۔

زماں ومکاں کا تصور اس وقت واضح ہو جاتا ہے، جب ہم ستاروں پر غور کرتے ہیں۔ ستاروں کے جو جُھرمٹ دکھائی دیتے ہیں ان میں سے بعض تو واقعی موجود ہیں، اس معنی میں کہ جُھرمٹ کے سارے ستارے ایک دوسرے کے تعلق سے تجاذبی نظام کے تحت باضابطہ حرکت میں ہیں۔

دوسرے ستاروں کے ایسے جُھرمٹ ہیں جو بادی النظر میں محض آفاقی طور پر دکھائی پڑتے ہیں۔ ہمیں یہ منظر غیر متعلق ستاروں کی غیر منظم قربت کی وجہ سے دکھائی دیتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ اس جُھرمٹ میں ہمیں دو ستارے یکساں طور سے روشن نظر آئیں، جس سے ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ وہ پاس پاس ہیں، لیکن حقیقت میں ان میں سے ایک 400 نوری سال کے فاصلے پر ہو، اور دوسرا صرف 40 نوری سال کی دُوری پر۔

آفاقی ذہن ہیئت کا ماہر، کائنات کو زمانی، مکانی تسلسل کے طور پر مانتا ہے۔ جب وہ اپنی نہایت طاقتور دوربین سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے، تو وہ مکانی حیثیت سے آگے کی طرف دیکھتا ہے لیکن زمانی حیثیت سے پیچھے کی طرف۔

اس کے نازک اور حساس کیمرے کائنات کی اس روشنی کی تصویر کھینچتے ہوں گے، جو 50 کروڑ نوری سال قبل اپنے مرکز سے چل کر اب پہنچ رہی ہے۔
یعنی ساری دنیا کے حساب سے، اس عہدِ عتیق سے جب کہ رُوئے زمین پر رینگنے والے جانداروں سے زندگی کا آغاز ہو رہا تھا، اس ماہر ہیئت کے حساب سے ہماری کہکشاں سے کائناتِ بسیط کے دوسرے کہکشاں 35,000 میل فی سیکنڈ کے حساب سے دُور کھسکتی جا رہی ہے.

اس لیے جو روشنی 50 کروڑ نوری سال کے بعد آج ہم تک پہنچ رہی ہے، خدا معلوم اس مدت میں وہ کہکشاں کھسک کر کہاں پہنچ گیا ہوگا! اور آج اس کا وجود ہے بھی یا وہ ختم ہو چکا ہے؟

اس کا علم کسی کو نہیں۔ حضرتِ انسان کو کرہ ارضی پر قدم جمائے بہت زیادہ مدت نہیں گزری، پھر بھی وہ اپنی دانش میں اپنی دنیا کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں حتمی رائے دینے کا دعویدار بن بیٹھا ہے۔

کائنات کی حقیقت کوئی اتفاقی امر نہیں ہے۔ اس کی عظمت اور جلال کا احساس اسی کو ہو سکتا ہے جو آفاقی ذہن سے کام لے سکتا ہو، اور علامتی طور پر ریاضی کے اصولوں کے مطابق چار ابعادی تسلسل میں بھی اس کا بیان کر سکتا ہو۔

(یہ تحریر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی)