لاہور: (ویب ڈیسک) دیرینہ درد ہماری زندگیوں کے مختلف پہلوؤں کو متاثر کرتاہے۔ مثلاً تعلقات، کام، شوق، جسمانی صحت وغیرہ۔ ہمیں سب سے پہلے دیرینہ درد اور شدید درد میں تفریق کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ درد زیادہ طویل ہوتا ہے۔ یہ تین ماہ سے زیادہ رہنے والا درد ہوتا ہے اور متوقع عرصے میں اس کی شدت کم نہیں ہوتی۔ بعض صورتوں میں علاج کے باوجودراحت نصیب نہیں ہوتی۔ دیرینہ درد کسی صدمے مثلاً موچ آنے سے شروع ہو سکتا ہے۔ جوڑوں کی خرابی، معدے کا السر وغیرہ اس کا سبب ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات اس کی وجوہ کا پتا نہیں چلتا۔ اس درد میں مبتلا افراد اپنی روز مرہ سرگرمیاں عموماً کم کر دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ ایسا فوری طور پر کریں، یہ دھیرے دھیرے ہوتا ہے۔ اور جب وہ جسمانی سرگرمیوں کو کم کرتے ہیں تو جسم اس کا عادی ہو کر کمزور ہونے لگتا ہے۔
عام طور پر اس کے ساتھ منفی خیالات اور شکست خوردہ تصورات گھیر لیتے ہیں۔ فرد سوچنے لگتا ہے ’’اس درد کے ساتھ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘ یا ’’میں کبھی اس قابل نہیں ہوں گا کہ اس سے نجات پا سکوں۔‘‘ جو بھی اس طرح کے منفی خیالات اور ناخوشگوار جذبات میں مبتلا ہو گا،وہ فطری طور پر افراد، مقامات اور اشیا سے گریز کرنے لگے گا تاکہ حرکات و سکنات سے کہیں اس درد میں اضافہ نہ ہو جائے۔ لیکن ایسا کرنے سے بدقسمتی سے آخر کار مسئلہ بڑھ جاتا ہے۔
خوش قسمتی سے دیرینہ درد میں بعض طریقے مؤثر ثابت ہوئے ہیں جن میں ’’کوگنیٹو بیہیورل تھراپی‘‘ شامل ہے۔ ذیل میں کچھ طریقے بتائے گئے ہیں جو دیریہ در د سے نپٹنے میں مفید ہو سکتے ہیں۔
موزوں مقاصد کا تعین: یہ ایسے مقاصد ہوتے ہیں جو معین، قابل پیمائش، قابل حصول اور وقت سے بندھے ہوئے ہوں۔ مثلاً اپنے آپ سے صرف یہ مت کہیے کہ آپ ورزش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کب ورزش کرنا چاہتے ہیں؟ ہفتے میں کتنی مرتبہ؟ کہاں کریں گے؟ کتنے وقت کے لیے؟ کس کے ساتھ؟ اپنے آپ سے اس قسم کے سوالات کیجیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کون کون سے قدم اٹھانے ہیں۔ اگر آئندہ کا نقشہ نہ ہو تو دیرینہ درد سے نجات پانا مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے خود ہی موزوں مقاصد تشکیل دیں۔
آہستہ ورزش: کہا جاتا ہے ’’حرکت میں برکت ہے‘‘ ۔ عمر کے ساتھ ساتھ جوڑوں میں مائع اور رطوبت کم ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں حرکت کرنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے پٹھوں کی مضبوطی کے لیے کم سخت ورزش کرنی چاہیے۔ ورزش کے انتخاب سے قبل ماہر یا ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ورزش کا مطلب میراتھن دوڑ نہیں لینا چاہیے بلکہ آہستہ آہستہ آگے بڑھنا چاہیے۔ دیرینہ درد کے مسئلے کے شکار افراد میں تھوڑی بہتری کے پیش نظر ازخود زیادہ ورزش کرنے کا رجحان ہوتا ہے۔زیادہ کے بجائے ورزش کا باقاعدگی سے ہونا اہم ہے۔
آرام: اس درد کے ساتھ آرم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دیرینہ درد کے شکار افرا د کے جسم کھچاؤ کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے آرام یا ریلیکس کرنے کے طریقے اپنانے چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے اپنے فون پر مراقبے کی ایپس ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک ’’اِن سائیڈ ٹائمر‘‘ ہے جو مفت دستیاب ہے ۔ ہنسیں کھیلیں: دیرینہ درد کی صورت میں کسی جذباتی یا جسمانی صدمے کا خوف زندگی کو مزید تنہا بنا دیتا ہے۔ لیکن آپ ہنسنے کھیلنے والی سرگرمیوں میں جتنا کم شریک ہوں گے، آپ کا موڈ اتنا خراب رہے گااور معیارِ زندگی اتنا کم ہو گا۔ آپ کو گوگل پر ’’Pleasant Activities Schedule‘‘ تلاش کرنا چاہیے۔ آپ کوموڈ بہتر کرنے کے سیکڑوں امکانات نظر آنے لگیں گے۔ تاہم اپنی زندگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیجیے کہ کون سے مفید ہیں۔
سوچ کو چیلنج : تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ صورت حال کو حقیقت سے زیادہ سمجھنے کی سوچ (مثلاً یہ خیال کرنا کہ اس درد کے ساتھ میں کچھ نہیں کر سکتا، یا یہ درد کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا) درد اور نفسیاتی دباؤ میں اضافے اور معذوری کا سبب بنتی ہے۔ پس اپنے خیالات کا تجزیہ کیجیے۔ یہ سوچئے کہ اپنے خیالات کو کٹہرے میں لانا ہے… کیا واقعی یہ سچ ہے کہ درد کبھی نہیں جائے گا؟ کیا یہ سچ ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتا؟
اچھی نیند: نیند جسم کی توانائی بحال کرنے کا وقت ہے اور اگر آپ کو اچھی نیند نہیں آ رہی تو آپ کے درد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سو نیند کی بہتری کے لیے فوری کیے جانے والے کام یہ ہوں گے۔
:۱۔ سونے اور جاگنے کا وقت مستقل رکھیںتاکہ آپ کا جسم اس کا عادی ہو جائے اور اسے پتا ہو کہ کب سونے کا وقت ہے۔ ۲۔ اپنے سونے کے کمرے کا ایسا اہتمام کیجیے کہ سوتے وقت توجہ ادھر اُدھر نہ ہو، نیز غیرضروری روشنی نہیں ہونی چاہیے۔ ۳۔ سونے سے قبل کیفین اور نکوٹین والی اشیا مثلاً چائے اور سگریٹ استعمال نہ کریں۔۴۔ اگر دن کے دوران کوئی جذباتی مسئلہ پیدا ہوا ہے تو سونے سے قبل اسے حل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ چھ گُر یا طریقے اگر استعمال کیے جائیں تو مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔