لاہور: (ویب ڈیسک) موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہمالیہ اور ہندو کش کے سلسلہ میں واقع گلیشیئرز کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ گلیشیئرز آٹھ ممالک میں رہنے والے تقریباً 25 کروڑ افراد کے لیے پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔
ماہرین کی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا تو ان گلیشیئرز کا دو تہائی حصہ ختم ہو سکتا ہے۔ اگر اس صدی میں دنیا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود بھی کر دیا جائے تو بھی ان گلیشیئرز کا ایک تہائی حصہ ختم ہو جائے گا۔
کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ کی بلند و بالا چوٹیاں بھی ہمالیہ اور ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں کا حصہ ہیں، قطبی علاقوں کے علاوہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ برف انھی علاقوں میں پائی جاتی ہے لیکن سائنسدانوں کے مطابق بڑھتے درجہ حرارت کے باعث یہ برفانی میدان ایک صدی سے بھی کم عرصے میں خالی چٹانوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ آنے والی چند دہائیوں میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے برف پگھلنے کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔
انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ کے بین الاقوامی مرکز کے ماہر فلپس ویسٹر کا کہنا ہے کہ اس خطے میں جس کا شمار پہلے ہی دنیا کے سب سے مشکل اور خطرناک پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے، وہاں کے لوگوں پر پڑنے والے اثرات میں بدترین آلودگی سے لے کر شدید موسمیاتی تبدیلیاں شامل ہوں گی لیکن سب سے بڑا اثر مون سون کے موسم میں تبدیلی اور مون سون سے قبل دریاؤں کے بہاؤ میں کمی سے شہری علاقوں میں پانی ،خوراک اور توانائی کی پیداوار پر پڑے گا۔
ان تبدیلیوں سے جو علاقہ متاثر ہو گا اس کا رقبہ تقریباً 3500 کلومیٹر ہے اور یہ افغانستان، بنگلا دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان میں واقع ہے۔ ہمالیہ اور ہندوکش کے گلیشیئر دنیا کے اہم ترین دریاؤں گنگا، سندھ، ییلو، می کانگ اور اراوادی کو پانی مہیا کرنے کے علاوہ، بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اربوں لوگوں کے لیے خوراک، توانائی، صاف ہوا اور آمدن کا بھی ذریعہ ہیں۔
سائنسدانوں کو خطرہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں صرف پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کو ہی نہیں بلکہ دریا کے گرد رہنے والے تقریباً ایک ارب پینسٹھ کروڑ لوگوں کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہوں گی، جو سیلاب اور فصلوں کی تباہی کی وجہ سے غیر محفوظ ہو جائیں گے۔