لاہور: (روزنامہ دنیا) بم کے پھٹنے کے بعد دس سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں بھارت کے اوپر آگ کا گولہ نمودار ہو گا۔ ہر طرف سرخی سرہی سرخی پھیل جائے گی، غروب آفتاب جیسی سرخی۔ اس کے تابکاری ذرات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والا گمبیر دباؤ دس سیکنڈ کے اندر اندر 2 کروڑافراد کو جلا کر راکھ کر دے گا۔
بڑے ممالک نے انسانیت کو مارنے کے لئے ہزاروں طاقتور ایٹمی ہتھیار تیارکر رکھے ہیں۔ اس دوڑ میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ 13900 ایٹمی ذخائر میں سے 93 فیصد مہذب ممالک (امریکہ اور روس) کے پاس ہیں۔ ان دونوں ممالک نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے۔ باقی ماندہ 7 ممالک کے ذخیرے میں بارہ سو ایٹم بم محفوظ ہیں۔
2025ء میں فرانس کے پاس 300، برطانیہ کے پاس 215، اسرائیل کے پاس 80 اور چین کے پاس 270 ایٹمی ہتھیار ہو سکتے ہیں۔ جبکہ 2019ء میں پاکستان اور بھارت کے پاس بالتریب 150 اور 140 ایٹمی ہتھیار تو ہونا چاہیے تھے۔ عالمی سائنس دانوں کی رپورٹ کے مطابق 1998ء میں ٹیسٹ کئے جانے والے ایٹم 5 کلو ٹن سے 15 کلو ٹن تک ہو سکتے ہیں۔ بعدا زاں بڑے بم بھی بنا لئے گئے۔
1998ء میں ٹیسٹ کئے جانے والے ایٹمی ہتھیاروں کی خوبی یہ تھی کہ وہ سب کے سب یورینیم بیسڈ تھے۔ یورینیم بیسڈ بڑے ایٹمی ہتھیار بنانا مشکل کام نہیں ہے۔ 2025ء تک دونوں ممالک کے اس ذخیرے میں 200 سے 250 تک مزید ایٹمی ہتھیار شامل ہو جائیں گے۔ جن میں وہ ایٹم بم بھی شامل نہیں جن کو ’’پائو بھر ‘‘ کے ایٹم بم کہا جا رہا ہے۔ ’’بلیٹن آف اٹامک سائنسز‘‘ کے مطابق پاکستان پلوٹونیم تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے 130 سے 140 تک ایٹمی ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی ایٹمی جنگ کے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے دنیا کی چار بڑی یونیورسٹیوں (یونیورسٹی آف کالریڈو، یونیورسٹی آف بولڈڑ، رٹگرز یونیورسٹی، یو ایس نیشنل سنٹر برائے ایٹمی تحقیق) کے سائنسدان سر جوڑ کر بیٹھے۔
ان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت جیسی چھوٹی ایٹمی طاقتوں کے مابین ایٹمی جنگ چھڑتے ہی پانچ کروڑ سے ساڑھے بارہ کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے۔ رٹگرز یونیورسٹی میں شعبہ ماحولیاتی سائنس منسلک ایک مصنف ایلن روباک کے خدشے کے مطابق دس روزہ پاک بھارت ایٹمی جنگ 2025ء میں چھڑ سکتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ سابقہ تخمینے غلط ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ اب کہیں زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ اب طاقتور ایٹمی ہتھیار بن چکے ہیں، تعداد بھی زیادہ ہے، اہداف اور ایٹم بم چلانے والے ہتھیاروں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
اسی خطرے کو بھاپنتے ہوئے 2017ء میں امن کا نوبل انعام کسی ایک شخص کو دینے کی بجائے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے 9 بڑے ایٹمی ممالک پر دباؤ ڈالنے والی تنظیم (International Campaign to Abolish Nuclear Weapons) کو دے دیا گیا تھا۔ دنیا کی بقا کا راز مضمر اسی میں ہے۔ محققین نے ایٹمی ہتھیاروں کو عالمی قتل عالم کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
پاک بھارت کشیدگی مذاق نہیں، عالمی ماہرین
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان، بھارت حالیہ تنازع کوئی مذاق نہیں ہے۔ 26 فروری کو پاکستانی حدود کی خلاف کرنے والے بھارتی طیارے کو گرا لیا گیا تھا۔
پاکستان نے پائلٹ کو بھی حراست میں لے لیا تھا مگر بعد ازاں جذبہ خیر سگالی کے تحت اسے رہا کر دیا گیا۔ دونوں ممالک کے مابین اس قدر تناؤ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیاں روزانہ ہی ہو رہی ہیں، پاکستان ہر خلاف ورزی کا منہ توڑ جواب دے رہا ہے مگر آبادی زیادہ ہونے کے باعث مودی سرکار کو مرنے والے فوجیوں کی فکر نہیں ہے۔’’نیشنل کمانڈ اتھارٹی ‘‘کسی بھی موقع پر ایٹمی آپشن کو استعمال کر سکتی ہے۔ دونوں ممالک زمینی، فضائی اور آبی ہتھیاروں پر ایٹمی ہتھیار نصب کر چکے ہیں، ایسا محض نمائش کے لئے نہیں کیا گیا۔
پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ’’ریڈ الرٹ ‘‘ حالت میں ہیں، ایک آواز یا ایک جنبش پر دوسرے دشمن کو نشانہ بنانے کے لئے تیار ہیں۔ ماہرین نے اس نظریے کو محض تخیل قرار دیا ہے کہ ایٹم سمبل نہیں ہیں۔ کئی اقسام کے جہاز ایٹمی ہتھیاروں کے قرب میں ہی رکھے گئے ہیں۔ اسے جوڑنا کوئی مشکل نہیں، مگر یہ کام صرف حکومت ہی کر سکتی ہے۔
ماہرین کی رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے مابین محدود ایٹمی جنگ بھی اندیشہ ہے لیکن جنگ محدود ہو یا مکمل، اس کے نقصانات ایک جیسے ہی ہوں گے، البتہ نقصانات کے پھیلاؤ میں وقت لگ سکتا ہے۔ یاد رہے، مکمل ایٹمی جنگ دنیا کے کسی بھی خطے میں نہیں ہوئی اور اللہ نہ کرے کہ ایسی جنگ کبھی ہو۔
بھارت میں جماعت کوئی بھی حکمران ہو، اس کی سوچ ایک ہی ہوتی ہے وہ پاکستان کو غلام بنانا چاہتے ہیں۔ بھارتی رہنما یہ کہتے نہیں تھکتے کہ دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) کو ایک ہی ہو جانا چاہیے۔
مغربی مصنفین نے کانگریسی رہنماؤں سے جب یہ سوال کیا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کبھی پاکستان پر فتح پا سکتے ہیں؟ تو انہوں نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ اب بھی بھارت اور پاکستان کو ایک ملک بن جانا چاہیے‘‘۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقدامات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہندو کسی کے ساتھ چین سے نہیں رہ سکتے۔ دوسرے ممالک میں زیر تعلیم بھارتی ہندو طلبا بھی اسی قسم کی سوچ کے ممالک ہیں۔
عالمی ماہرین کے مطابق بھارت نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر رکھا ہے۔ یہ بھی ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ بھارت پہلے کہتا رہا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا مگر اس کے وزیر راج ناتھ نے کہہ دیا ہے کہ’’ پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی ترک کر دی گئی ہے۔ بھارت ایٹمی ہتھیار پہلے بھی استعمال کر سکتا ہے‘‘۔ عالمی نقشے پربھارت کے کئی شہروں کو ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔
ماہرین کے مطابق بھارت کی جانب سے ’’پہلے استعمال ‘‘کی دھمکی کے بعد ہی پاکستان نے بھی ایٹمی حملے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ بھارت کی جانب سے خطے کو ایٹمی جنگ میں دھکیلنے کی سازش سے ہر قوم متاثر ہوگی، فرار ممکن نہیں ہے۔
شہر کے شہر جل اٹھیں گے، ان کے دھویں سے الگ نقصان ہو گا۔ یہ غذائیت اور انسانیت کے لئے خطرے کا باعث بنے گا۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ جنگ مسلط ہونے کی صورت میں پاکستان بھارت پر 250 ایٹمی ہتھیار چلا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کل 400 سے 500 تک ایٹمی ہتھیار چلا سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق پاکستان اور بھارت کے ایٹمی تجربات کی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کچھ بم ہیروشیما پر چلائے گئے ایٹم بم سے بھی چھوٹے یعنی 12 کلوٹن کے ہیں۔ 45 کلو ٹن تک سے لے کر جدید کئی سو ٹن کلوٹن کے ایٹمی ہتھیار بھی ذخیرے کا حصہ ہیں۔
تاہم دونوں ممالک کے پاس زیادہ تر ایٹمی ہتھیار 15،15 کلو ٹن کے ہیں۔ غیر ملکی ماہرین کے مطابق پہلے مرحلے میں چھوٹے بم ہی چلائے جائیں گے۔ یہ اس قسم کے ’’لٹل بوائے ‘‘ٹائپ بم ہو سکتے ہیں جیسے بم امریکہ نے ہروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے تھے۔
جاپان جیسی بڑی طاقت نے بھی اس کے بعد ہتھیار پھینک دیئے تھے، بھارت کس کھیت کی مولی ہے۔ سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ جنگ محدود ہو یا بڑی، دنیا میں موجود ہر جان اس سے متاثر ہو گی۔ خواہ وہ مومباسا کا ماہی گیر ہو یا نبراسکا کا صنعتی کارکن۔ اس جنگ سے بھی پوری دنیا متاثر ہو گی۔
پورا بھارت ہمارے نشانے پر جدید تحقیق
بھارت کے 400 شہر بڑے ہیں، ایک لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر چار سو سے زیادہ ہیں۔ یہ سب کے سب ہمارے نشانے پر ہیں۔ پاکستان 9 مقامات سے بھارت کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ بھارت کی مہم جوئی کی صورت میں پاکستان زمین سے فضا میں مار کرنے والے آٹھ اقسام کے میزائل کی مدد سے بھی ایٹمی ہتھیار چلا سکتا ہے جبکہ میراج اور ایف سولہ بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
جہازوں کی مدد سے پاکستان بھارت اندر 18 سو کلومیٹر تک کسی بھی شہر پر بم گرا سکتا ہے جبکہ میزائلوں کی مدد سے بھارت کے اندر 2750 کلومیٹر کی رینج ہر شہر ہمارے نشانے پر ہے۔ پاکستان اپنے دو اقسام کے کروز میزائلوں کی مدد سے بھی بھارت کے اندر کئی سو کلومیٹر تک کسی بھی شہر کو نشانہ بنایا سکتا ہے۔ بھارت کا چپہ چپہ ہمارے دو مار میزائلوں کی رینج میں ہے۔
سب سے پہلے کیا ہوگا؟
بم کے پھٹنے کے بعد دس سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں بھارت کے اوپر آگ کا گولہ نمودار ہو گا۔ ہر طرف سرخی سرہی سرخی پھیل جائے گی، غروب آفتاب جیسی سرخی۔ اس کے تابکاری ذرات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والا گمبیر دباؤ دس سیکنڈ کے اندر اندر 2 کروڑافراد کو جلا کر راکھ کر دے گا۔
ایک سو کلوٹن کے ایٹم بم سے جانی نقصان اس سے چار گنا زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اموات کا پہلا مرحلہ ہو گا۔ اگر پاکستان 150 اور بھارت 100 ایٹم بم استعمال کرتا ہے تو 5 کروڑ سے 15 کروڑ تک انسان جل کر راکھ ہو جائیں گے۔
جنگ کی صورت میں بھارت کا نقصان پاکستان سے تین گنا زیادہ ہو گا۔ وہاں پاکستان کے مقابلے میں تین گنا ہندو لقمہ اجل بن جائیں گے۔ اگرچہ یہ ہتھیار امریکہ اور روس کے ہم پلہ نہیں، ان کی طاقت دونوں بڑے ممالک کے ہتھیاروں سے کافی کم ہے مگر بھارت کو مزہ چکھانے کے لئے کافی ہیں۔
لٹل بم سے ہروشیما کے ایک لاکھ باشندے (40 فیصد آبادی) فی الفور موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ بھارت دنیا کے گنجان آباد ممالک میں شامل ہے، وہاں مرنے والوں کی تعداد جاپان کی بانسبت کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
عالمی ماہرین نے کلکتہ اور ممبئی کی مثالیں بھی دی ہیں جہاں آبادی کا دباؤ 65 ہزار فی مربع میل سے بھی زیادہ ہے۔ ان گنجان آباد بھارتی شہروں کو پاکستان کا ’’لٹل بم‘‘ بھی نیست ونابود کر سکتا ہے۔ ورنہ امریکہ کے میگا ٹن ایٹم بم منٹوں میں میگا شہرکی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔ 1945ء میں امریکہ کی جانب سے جاپان پر گرائے جانے والے نیپام بم (آگ لگانے والے) سے ناگاساکی پر ایٹم بم سے بھی زیادہ جانی نقصان ہوا تھا، ہر طرف آگ ہی آگ دکھائی دیتی تھی۔
طویل عرصے تک لوگ موت کا شکار ہوتے رہے تھے، لہٰذا یہ کہنا مشکل نہیں کہ ایٹم بم کے استعما ل سے موت کا سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
بھارت زیادہ گنجان آباد ملک ہے، محققین کے مطابق بھارت کے شہر پاکستانی ایٹم بموں کے نشانے پر ہیں، بچنا محال ہے۔ ہندو صرف بھارت میں رہتے ہیں، ہندو مت کا دنیا سے نام و نشان مٹ جائے گا، اس کی ذمہ داری ہندو مت کے پار نریندر مودی اور ان کے رفقائے کار پر عائد ہوگی۔
اگر بھارت نے ایٹم بم چلایا تو اس کے فوری اثرات چین، روس، افغانستان، اور ایران اور عرب ممالک میں بھی پھیل جائیں گے۔ جنوب مشرقی ایشیا اور عرب ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ چرنوبائل کے تابکاری مادوں نے یوکرائن کے راستے مغربی یورپ کو بھی متاثر کیا تھا، کل 77 ہزار مربع میل میں کم از کم ساڑھے چھ لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایٹمی جنگ شروع ہوتے ہی پہلے دس سیکنڈ میں کیا ہوگا؟
محقق گزماڈو نے انکشاف کیا کہ ایٹم بم کے چلتے ہی ایٹمی آگ بھڑک اٹھے گی۔ دنیا بھر میں دھواں پھیلنا شروع ہو جائے گا۔ کچھ حصوں میں فوری اور باقی ماندہ حصوں کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
ایٹمی دھواں افق کی بلندیوں پر جا کر دور دور تک پھیلنا شروع ہو جائے گا۔ یہ ایٹمی ذرات ہوا کے دوش پر سفر کریں گے، جہاں بھی جائیں گے، انسانیت کو ملیا میٹ نہیں تو زندگی محال ضرور بنا دیں گے۔
علاقے کا ایکو سسٹم پلک جھپکنے میں تباہ ہو جائے گا، ہوا سے آکسیجن ایسے غائب ہو جائے گی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ آکسیجن کے ختم ہوتے ہی نباتات اور حیوانات، سب دم گھٹنے سے مرنا شروع ہو جائیں گے۔
ذرات کے پھیلائو کا دائرہ کہیں بھی رکنے والا نہیں، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ پھیلتے رہیں گے۔ دنیا بھر میں قحط کی سی صورتحال پیدا ہو جائے گی، بھوک بڑھنے میں اضافہ ہو جائے گا۔
ایٹمی ذرات کے زیر اثرموسمیاتی تبدیلیوں کا عمل ایک سال سے دس سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ جوں جوں ایٹمی ذرات آسمان میں پھیلتے جائیں گے بیماریوں اور زخموں سے بھی لوگ مرنا شروع ہو جائیں گی۔
ایٹمی سردی
ایٹم بم کے چلتے ہی آسمان پر 50لاکھ ٹن صاف شفاف ذرات کے چھا نے سے آسمان پوڈر میں لپٹا ہوا نظر آئے گا۔ ایک خطرناک اور جان لیوا ’’پوڈر‘‘ میں ۔ یہ اگلے 25برس تک دنیا بھرمیں پھیل سکتا ہے، اس پر قابو پانا ناممکن ہو گا۔
سورج کی حرارت میں 20 سے 35 فیصد تک کمی آسکتی ہے، عالمی درجہ حرارت 3.6 تا 9 فارن ہائیٹ تک گر جائے گا۔ شمالی امریکہ اور یورپ زیادہ متاثر ہوںگے، جہاں درجہ حرات میں 4.5 فیصد تک کمی ہو گی۔
موسم بدلنے کا دورانیہ دس سے چالیس دن تک گھٹ جائے گا۔ نمی 15 فیصد سے 30 فیصد تک کم ہو جائے گی۔ دنیا برف کے دور (آئس ایج) میں واپس چلی جائے گی۔
ایٹم بم سے 1.60 کروڑ ٹن سے 3.6کروڑ ٹن تک کاربن پیدا ہوگا ، یہ ذرات آسمان میں جمع ہوجائیں گے۔جہاں سے چند ہفتوں کے اندر اندر دنیا بھر میں پھیل جائیں گے۔
ایٹمی بادل ایٹمی ذرات اوزون کا 30 سے 50 فیصد تک خاتمہ کر دیں گے جس سے خطرناک الٹرا وائلٹ شعاعیں زمین تک پہنچنے لگیں گی۔ ’’سن برن ‘‘ اور سرطان کے امراض پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔
دنیا بھر میں گھٹن میں اضافہ ہو گا۔ 2008ء اور بعد ازاں 2014ء میں ایٹمی حملوں کے ممکنہ نقصانات پر بڑی تحقیقات کی گئی تھیں۔ 15 کلو ٹن کے ایک سو بموں کے نقصانات پرتحقیق کی گئی تھی۔
عالمی غذائی بحران کا خدشہ
یہ جنگ غذائی مصنوعات کے لئے زہر قاتل ثابت ہو گی، پانی وافر ہو یا کم ، علاقہ ساحلی ہو یا خشک، سب کومتاثر ہونا ہی پڑے گا۔ زمینی نباتات کی عمر 15 سے 30 فیصد کم ہو جائے گی۔
آج جو درخت دس سال پھل دے سکتا ہے ایٹمی جنگ چھڑنے کی صورت میں اس درخت کی عمر چھ سال سے زیادہ نہ رہے گی۔ سمندر میں اگنے والے پودے اور سمندری حیات بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔
ان کی عمر میں 5 سے 15 فیصد تک کمی ہو گی۔ معاشی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہو گا۔ پوری دنیا کساد بازاری کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ کینیڈین گندم سمیت کئی فصلوں کی کاشت ناممکن ہو جائے گی۔ زرعی پیداوار کم ہونے سے قحط میں اضافہ ہو جائے گا۔
بے گھر مہاجرین
شام اور یمن کی جنگ نے پہلے ہی کئی ممالک کو ’’مہاجرستان‘‘بنا رکھا ہے۔ سوا دو کروڑ آبادی میں سے 56لاکھ افردبے گھر ہونے کے بعد مہاجر ہو گئے ہیں۔ اس سے مقامی اور غیر مقامی آبادی کا تناسب بگڑ رہا ہے ،ان مہاجرین کی بے دخلی کے مطالبے زور پکڑ رہے ہیں۔
ایٹمی جنگ سے بھی لاکھوں افراد دوسرے ممالک میں پناہ گزیں ہونے کی کوشش کریں گے،جس سے المیے پہ المیہ جنم لے سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت 1.5ارب باشندوں کا گھر ہے، ایٹمی حملے سے افغانستان، بنگلہ دیش،ایران،نیپال، مالدیپ، میانمار ، سری لنکا،چین اور روس پر دبائو پڑے گا،ان ممالک کے ہمسائے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ چین نے مہاجرین کو کبھی خوش آمدید نہیں کہا ،مگرشائد ایٹمی بحران سے چین بھی نہ بچ پائے ۔