لاہور: (ویب ڈیسک) سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر کا کہنا ہے دنیا بھر سے سیاسی اشتہارات شائع نہیں کیے جائیں گے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’’دی گارڈین‘‘ کے مطابق سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ کی نئی پالیسی کی تفصیلات اگلے ماہ منظرعام پر لائی جائیں گی جبکہ پالیسی 22 نومبر سے باقاعدہ نافذ العمل ہوگی۔
اشتہارات سے متعلق نئی پالیسی کا اعلان ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو جیک ڈورسی نے جمعرات کو ٹویٹ کے ذریعے کیا۔
ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے جیک ڈورسی کا کہنا تھا کہ اگرچہ انٹرنیٹ پر اشتہارات شائع کرنا کاروباری طبقے کے لیے انتہائی طاقتور اور مؤثر ہے لیکن ایسی طاقت سیاست کے لیے خطرات کا باعث بنتی ہے اور ووٹر کی رائے کو متاثر کرنے میں استعمال ہوتی ہے جس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر اثر پڑتا ہے۔
ڈورسی کا مزید کہنا تھا کہ ہماری نئی پالیسی سیاسی مسائل سے متعلق اشتہارات شائع کرنے پر پابندی عائد کرے گی اور سیاسی امیدواروں سے بھی اشتہارات نہیں قبول کیے جائیں گے۔ کمپنی کا اقدام غلط اور جھوٹے حقائق پر مبنی معلومات کی تشہیر کو روکنے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹوئٹر کے مقابلے میں فیس بک کی پالیسی سیاسی تقاریر اور اشتہارات شائع کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ فیس بک کوئی مواد شائع کرنے سے پہلے اس میں موجود معلومات کی جانچ نہیں کرتا جس سے جھوٹی اور حقائق کے برعکس خبروں کی تشہیر کا خطرہ ہوتا ہے۔
فیس بک کے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ نے کمپنی کی پالیسی کے حوالے سے وضاحت کی تھی کہ ہر کسی کو رائے دینے کا حق ہونا چاہیے، سیاسی اشتہارات پر پابندی عائد کرنے سے سرکاری عہدیداران کو فائدہ ہو گا۔ سیاسی اشتہارات کمائی کمپنی کے منافع کمانے کا اہم ذریعہ نہیں ہیں۔
ٹوئٹر کے سی ای او نے مارک زکربرگ کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا انہوں نے ایسی بہت سی سماجی تحریکوں کو عوام و الناس میں پھیلتے ہوتے ہوئے دیکھا ہے جن کی تشہییر کے لیے اشتہارات کا سہارا نہیں لیا گیا تھا۔
ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ کمپنی کے اس اقدام سے آمدنی پر بہت تھوڑا اثر پڑے گا۔ ٹوئٹر کے چیف فنانشل افسر نے وضاحت کی کہ یہ فیصلہ منافع کو مد نظر رکھ کر نہیں کیا گیا بلکہ اصولوں پر مبنی ہے۔
امریکی سیاسی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی نے بھی فیس بک پر سیاسی اشتہارات اپنی ویب سائٹ سے ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
ولسن سینٹر کی فیلو نینا جینکو ونکز نے ٹوئٹر کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ٹوئٹر نے اپنی پالیسی صرف امریکہ تک محدود نہ کر کہ اچھا کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان اشتہارات کی وجہ سے ان سیاسی امیدواروں کی آواز دب جاتی ہے جو اشتہارات شائع کروانے کی مالی حیثیت نہیں رکھتے۔
سینیئر تجزیہ کار جیسمین اینبرگ کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر کی پالیسی کے اثرات کے حوالے سے اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا، کیونکہ ٹوئٹر کو سیاسی موضوعات پر بحث کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے غلط معلومات لوگوں تک پہنچ سکتی ہیں۔
We’ve made the decision to stop all political advertising on Twitter globally. We believe political message reach should be earned, not bought. Why? A few reasons…
— jack (@jack) October 30, 2019
For instance, it‘s not credible for us to say: “We’re working hard to stop people from gaming our systems to spread misleading info, buuut if someone pays us to target and force people to see their political ad…well...they can say whatever they want! ”
— jack (@jack) October 30, 2019