ہواوے کا صارفین کی جاسوسی کرنیکی درخواست قبول کرنے سے انکار

Last Updated On 25 December,2019 08:02 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) چینی موبائل فون کمپنی ہواوے کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں بیجنگ کی جانب سے اپنے صارفین کی جاسوسی کرنے کی درخواست قبول نہیں کرینگے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’اے ایف پی‘‘ کو ایک انٹرویو کے دوران ہواوے کمپنی کے چیئرمین لی آنگ ہوا کا کہنا ہے کہ ہماری کمپنی نے اب امریکی پابندیوں سے متاثرہ آلات پر انحصار ختم کردیا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا نے رواں سال مئی میں ہواوے کو بلیک لسٹ کیا تھا اور اس کے نتیجے میں وہ امریکی کمپنیوں سے آلات و پرزہ جات کی سپلائی سے محروم ہو گئی تھی۔ ہواوے دنیا میں ٹیلی کمیونیکیشن آلات بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔

پیپلز لبریشن آرمی کے سابق ملٹری انجینئر، رین زینگ فے نے 1987ء میں ہواوے کی بنیاد رکھی تھی، جو اب بھی اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ہیں۔ انہوں نے 1987ء میں چند ہزار ڈالرز سے ہانگ کانگ کے قریب شینزن میں ہواوے کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ اب 75 برس کے ہیں۔

کمپنی گزشتہ سال خبروں میں آئی جب رین زینگ فے کی بیٹی اور کمپنی کی سینیئر ایگزیکٹو مینگ وانزھو کو کینیڈا میں امریکا کی درخواست پر حراست میں لیا گیا تھا جس کے بعد امریکا اور چین کے سفارتی تعلقات میں تلخی دیکھنے میں آئی۔

امریکا نے الزام عائد کیا تھا کہ وانزھو نے ایران پر سخت پابندیوں کے باوجود ایران کو نیٹ ورکنگ کا سامان فروخت کیا۔ انہوں نے ان الزامات کی تردید کی اور وہ ضمانت پر رہا ہوگئیں۔ مینگ کی گرفتاری کے 9 دن بعد چین نے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔ چین کے اقدام کو ’بدلے‘ کے طور پر دیکھا گیا۔

رواں سال کے اوائل میں بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں رین کا کہنا تھا کہ فوج میں ملازمت کے دوران وہ سال میں ایک ماہ ہی اپنے بچوں کو دیکھ پاتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہواوے کی بنیاد رکھنے کے بعد دن میں 16 گھنٹے کام کرتا تھا جس میں اپنی فیملی کے لیے وقت نہیں بچتا تھا۔ خاص طور پر میں اپنی سب سے چھوٹی بیٹی سے کافی فاصلے پر رہا، بطور والد میں سمجھتا ہوں کہ میں ان کا مقروض ہوں۔

رین کے فوجی پس منظر کی وجہ سے خدشات کو تقویت ملی کہ ہواوے کے چینی حکام کے ساتھ روابط ہیں تاہم کمپنی خدشات کی مسلسل تردید کرتی رہی ہے۔ ہواوے دنیا میں ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے جو 170 ممالک میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہے۔

یہ سام سنگ الیکٹرونکس کے بعد سمارٹ فونز بنانے والی دنیا کی دوسری بڑی کمپنی ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ 88 ہزار ہے اور گزشتہ سال اس کے ریوینیو میں ایک کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔ فائیو جی سروس موبائل فون انٹرنیٹ کی پانچویں جنریشن ہے جو تیز ترین ڈیٹا ڈاؤن لوڈنگ، اپ لوڈنگ اور بہترین کنکشن کے ذریعے کوریج یقینی بناتی ہے۔

ہواوے چونکہ مواصلاتی آلات فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے لہٰذا چین کو ٹیکنالوجی کے اس شعبے میں بھی دیگر ممالک پر سبقت لے جانے کا موقع مل جائے گا۔