اوسلو: (ویب ڈیسک) یورپی ملک ناروے دنیا بھر میں فلاحی ریاست کی وجہ سے مشہور ہے، تاہم 2019ء اس یورپی ملک کے لیے مزید فائدہ مند ثابت ہوا۔ رجسٹر ہونے والی گاڑیوں میں سے 42 فیصد الیکٹرک گاڑیاں تھیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ناروے کا شمار ویسے تو تیل کے ذخائر سے مالا مال ممالک میں ہوتا ہے، لیکن یہ الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروانے والے ممالک میں بھی سرفہرست ہے۔ ناروے تیل کی بجائے بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں آسان اور منافع بخش شرائط پر مہیا کر رہا ہے۔
ناروے میں گاڑیوں کی مارکیٹ پر نظر رکھنے والے ادارے ’او ایف وی‘ کے خیال میں رواں سال الیکٹرک گاڑیوں کی مانگ پہلے سے زیادہ رہے گی، جس کی بڑی وجہ مارکیٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کے نئے ماڈلز متعارف کروانا ہے۔
2019 میں ناروے میں 60 ہزار سے زائد الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہوئیں جو 2018 کے مقابلے میں ایک لاکھ 42 ہزار زیادہ ہیں اور ان کی تعداد گذشتہ برس کی نسبت 30 فیصد زیادہ بنتی ہے۔ اس طرح گاڑیوں کی مارکیٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کا حصہ 31 فیصد رہا۔
ناروے کی گاڑیاں درآمد کرنے والی ایسوسی ایشن کے مطابق 2020 میں مارکیٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کی شرح دیگر گاڑیوں کے مقابلے میں 55 سے 60 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
واکس ویگن، فورڈ اور دیگر معروف برانڈز کی ای گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ سال ناروے میں امریکی کمپنی ’ٹیلسا‘ کی ای گاڑیوں کی فروخت سب سے زیادہ رہی تھی۔ 2019 میں ناروے میں ٹیلسا کے ’ماڈل 3‘ کی 15 ہزار 700 گاڑیاں فروخت ہوئیں۔
ناروے جہاں بجلی صرف ہائیڈل پاور کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے، کا ارادہ ہے کہ 2025 تک تمام گاڑیوں کو ماحول دوست بنایا جائے اور گاڑیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بالکل ختم کر دیا جائے۔
دوسری جانب الیکٹرک گاڑیوں کی ایسوسی ایشن نے ناروے کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ای گاڑیوں پر کم سے کم ٹیکس لگائے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کو خریدنے کی طرف مائل ہوں۔
ناروے میں ہائبرڈ گاڑیوں کی شرح بھی قریباً 25 فیصد ہے جو الیکٹرک اور تھرمل انرجی پر چلتی ہیں۔ جبکہ پیٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی شرح کم ہو کر16 فیصد رہ گئی ہے۔