لاہور: (ویب ڈیسک) چینی کمپنی ہواوے دنیا میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے، امریکی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑنے کے باعث ٹرمپ سرکار مختلف طریقوں سے ہواوے پر پابندیاں لگانے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں، ہواوے کو امریکا کی جانب سے مختلف پابندیوں کا سامنا ہے، خصوصاً 5 جی نیٹ ورک پر امریکی انتظامیہ کو تحفطات ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ اب چینی کمپنی کو بڑی کامیابی ملنے والی ہے۔
درحقیقت 28 جنوری کو امریکا کے قریبی اتحادی کی جانب سے 5 جی ٹیلی کام نیٹ ورکس کی تشکیل کے لیے ہواوے کے کردار کی منظوری دیئے جانے کا امکان ہے جو چینی کمپنی کے لیے بڑی کامیابی ہوگی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی جانب سے سکیورٹی بنیادوں پر مخالفت کے باوجود برطانیہ کی جانب سے فائیو جی نیٹ ورکس کی تشکیل کے لیے محدود کردار دیئے جانے کا امکان ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے فائیو کے حوالے سے اہم ترین فیصلہ ہونے والا ہے۔
واشنگٹن کی جانب سے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن پر دباﺅ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے تاکہ ہواوے کو مکمل طور پر ایک طرف کیا جاسکے۔
اے ایف پی کے مطابق اعلیٰ برطانوی عہدیدار نے گزشتہ ہفتے ہواوے کو گرین لائٹ دینے کا عندیہ ظاہر کیا تھا جبکہ فنانشنل ٹائمز نے گزشتہ دنوں بتایا تھا کہ وزیراعظم بورس جانسن کی جانب سے ہواوے کے محدود کردار کی منظوری دیئے جانے کی توقع ہے۔
روزنامے کے مطابق برطانوی وزرا اس منصوبے میں ہواوے کے مارکیٹ شیئر کو محدود رکھنے کے ذرائع پر غور کررہے ہیں۔ ایسا مانا جارہا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے فائیو جی نیٹ ورکس کے غیر اہم عناصر جیسے انٹینا اور بیس اسٹیشنز وغیرہ کے لیے ہواوے کو کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
امریکا نے اپنی سرزمین پر ہواوے کو فائیو جی نیٹ ورکس متعارف کرانے سے روک دیا تھا اور اس حوالے سے سیکیورٹی خدشات ظاہر کیے تھے کہ کمپنی کو چینی حکومت کنٹرول کررہی ہے، جس کی ہواوے نے مسلسل تردید کی۔
امریکی حکومت کے خیال میں ہواوے انفراسٹرکچر سے چینی حکومت کو جاسوسی اور تباہی پھیلانے کے مواقع ملیں گے اور یہی وجہ ہے کہ 2012 سے امریکا میں ہواوے ٹیلی کام آلات کے استعمال پر پابندی ہے، جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی ہواوے کے 5 جی موبائل نیٹ ورک کے آلات کی سپلائی پر پابندی عائد کررکھی ہے۔
مگر 2018 میں ہواوے کے بارے میں امریکی اقدامات میں شدت دیکھنے میں اس وقت آئی جب ٹرمپ انتظامیہ نے مختلف کمپنیوں جیسے اے ٹی اینڈ ٹی اور دیگر کو ہواوے فونز کی ڈیل سے روک دیا گیا جبکہ گزشتہ سال مئی میں ہواوے کو امریکی صدر نے بین کردیا تھا۔
امریکا کی جانب سے برطانیہ پر بھی زور ڈالا گیا بلکہ دھمکایا گیا کہ اگر اس نے ہواوے سے معاہدہ کیا تو دونوں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کو محدود کیا جاسکتا ہے۔
برطانوی حکام نے نشاندہی کی کہ امریکا کے برعکس برطانیہ ہواوے ٹیکنالوجی کو اپنے سسٹمز میں گزشتہ 15 سال سے استعمال کررہا ہے۔
برطانیہ کے سیکیورٹی اداروں کا ماننا ہے کہ وہ اب تک اس حوالے سے خطرے کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہے ہیں اور وہ فائیو جی نیٹ ورک کے حوالے سے بھی ایسا کرنے کے قابل ہیں۔
فائیو جی ٹیکنالوجی کو اب تک کئی ممالک میں متعارف کرایا جاچکا ہے جو کہ مستقبل کی ٹیکنالوجیز جیسے خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی گاڑیوں اور دیگر کے لیے انتہائی اہم پیشرفت قرار دی جارہی ہے۔