اسلام آباد: (ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہری کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی اے نے جو کچھ کرنا ہے قانون کے مطابق ہی کرنا ہے، پابندی لگانی ہے تو لکھیں فلاں قانون کی خلاف ورزی میں لگائی ہے۔
تفصیل کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے ویڈیو گیم پب جی پر پابندی کیخلاف شہری کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اس معاملے کو کارروائی کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو بھیج دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے شہری عبدالحسیب ناصر کی درخواست پر سماعت کے دوران پی ٹی اے کے وکیل سے پوچھا کہ پب جی کیا ہے؟ یہ گیم ہے یا ویب سائٹ؟
وکیل کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ ایک لنک ہے جس کو پی ٹی اے نے عارضی طور پر معطل کیا ہے۔ جسٹس عامرفاروق نے پوچھا کہ اس میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے آپ نے معطل کیا؟
پی ٹی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لاہور پولیس نے پب جی گیم کے خلاف ایک لیٹر لکھا جس میں خود کشیوں کا ذکر کیا گیا۔ اس کے علاوہ والدین کی جانب سے بھی ہمیں گیم بلاک کرنے کی درخواست دی گئی۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پی ٹی اے نے کہا تھا کہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرنے کی عوامی شکایات پر پب جی گیم پر عارضی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پب جی گیم پر پابندی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا
خیال رہے پاکستان میں پب جی گیم پر پابندی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواستگزار نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان میں پب جی کا ٹورنامنٹ جیتا۔ میں نے 10 جولائی کو پب جی ورلڈ لیگ میں شامل ہونا ہے۔ تعلیمی اداروں میں نمبر کم ہونے کی وجہ سےخود کشیوں پر کیا تعلیمی ادارے بند کئے جاتے ہیں؟
درخواستگزار نے مزید موقف اختیار کیا کہ الیکٹرانک سپورٹس دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ پب جی گیم آن لائن پیسے کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پب جی گیم پر پابندی سے بڑی کمپنیوں کی سپانسرشپ ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپانسر شپ ختم ہونے سے پاکستان کو بے حد معاشی نقصان ہوگا، پب جی گیم پر پابندی سے پاکستان الیکٹرانک سپورٹس میں بلیک لسٹ ہوسکتا ہے۔ پی ٹی اے کی جانب سے پب جی گیم پر پابندی کا فیصلہ کالعدم کیا جائے۔