لاہور: (سپیشل فیچر) پرتشدد آن لائن گیمز نوعمر بچوں کو اپنا شکار بنا کر انکی ترجیحات کو بدل چکی ہیں۔ آن لائن گیمز کی بے ہنگم عادت بچوں میں نفسیاتی، جمسانی و سماجی مسائل جنم دے رہی ہےگیم کو گیم سمجھنا فائدہ مند، مگرحقیقت سمجھ لینا نقصان دہ ہو سکتا ہے
مشہور کہاوت ہے کہ Excess of everything is bad یہ جملہ فقط الفاظ کا مجموعہ یا کتابوں کی رونق نہیں بلکہ اس میں حقیقی اور عظیم سبق پوشیدہ ہے، یعنی کہ زندگی کا ہر وہ عمل جسے کرنے میں انسان تمام حدود و قیود پار کر جائے وہ شرطیہ اس کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ جیسے انسان کا حد سے زیادہ کھا لینا بھی نقصان دہ ہے اور حدگزری بھوک برداشت کرنے کے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہذا ضرروی ہے کہ زندگی کے ہر پہلو میں اعتدال پسندی کی عادت اپنائی جائے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی جائے۔
آج کے دور جدید میں جہاں ہر سو افرا تفری ہے، انسانوں کو سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش ہے کہ روزمرہ کی روٹین شدید خراب اور زندگی میں ترجیحات کا تعین نہایت غلط ہو چکا ہے۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اپنے یا اپنے سے جڑے افراد کی روزمرہ کی زندگی کو سنوار کر فائدہ مند بنائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انسان شاید زندگی کی آسانیوں کو ڈھال بناتے ہوئے خود کام سے بھاگتا ہو اور اندرونی طور پر سست ہو چکا ہے۔ مگر آج کی بڑھتی ٹیکنالوجی ، نت نئی ایجادات، ابھرتی ہوئی انٹرٹینمنٹ اندسٹری اور آن لائن رسائی بلاشبہ ہر گھرانے میں ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ پوری دنیا کے ایک ہاتھ میں سما جانے کے بعد انسان کے سامنے دو راستے کھل گئے ہیں یا تو وہ ان سہولیات کو کارآمد بناتے ہوئے مثبت استعمال کرے یا ان کابیجا اور منفی استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی ناکام اور نقصان دہ بنا لے۔ عصر حاضر میں ٹیکنالوجی اور انٹرٹینمنٹ کے بچوں کے ساتھ تعلق کی بات کیجائے تو آن لائن ویڈیو گیمز یا الیکٹرانک گیمز کا بے پناہ استعمال اور انکے منفی اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اور یہ مسئلہ مشرق، مغرب اور پوری دنیا میں یکساں موجود ہے۔ بچوں میں حد گزرتا ہوا ویڈیو اور آن لائن گیمز کا شوق انکی زندگی کے تمام پہلوؤں میں نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔بلاشبہ گیم کو گیم سمجھا جائے تو فائدہ مند ہے، مگر اسے حقیقت اور ترجیح سمجھ لیا جائے تو نقصان ہی نقصان ہے۔
بچہ ویڈیو گیمز کا عادی کیسے بنتا ہے؟
دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ معصوم ہے ، اس نے وہی سب سیکھنا ہے جو اس کے والدین یا ارد گرد کے دیگر افراد اسے سکھائیں گے، سوال یہ ہے کہ معصوم بچہ کسطرح نفسیاتی چیلنجز دینے والی ویڈیو گیمز کا شکار بنتاہے؟ اسکے اصل قصور وار والدین خود ہیں۔ جو آغاز ہی سے چھوٹے بچوں کو رونے سے چپ کروانے کیلئے موبائل فون یا ویڈیو گیمز مہیا کردیتے ہیں، اور کچھ ہی عرصہ میں بچہ جب ان چیزوں کا استعمال ٹھیک سے کرنے لگے تو فکر مند ہونے کے بجائے فخر اور خوشی سے اسے بچے کی ذہانت سمجھتے ہیں۔ جسکا معیار یہ بتاتے ہیں کہ چھوٹی سی عمر میں انکا بچہ ٹچ موبائل میں گیم جیتنے کا ماہر ہو چکا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ نو عمر بچے میں پیدا ہوئی یہ عادت کچھ ہی وقت بعد کسطرح ٹھوس ہو جائے گی اور تب یہی گیمز اسکی ترجیح ہونگی۔یہیں سے ترجیحات کا غلط تعین شروع ہوتا ہے۔ پہلی غلطی والدین کی ہوتی ہے کہ انھوں نے بچوں کیلئے دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں پر ویڈیو گیمز کو ترجیح دی اور دوسرا بچوں کی اپنی ہٹ دھرمی کہ وہ بار بار سمجھانے کے باوجود پڑھائی اور نصیحت کو نظر انداز کرتے ہوئے گیمز کو ترجیح بنا لیتے ہیں۔
آن لائن گیمز کے باعث نفسیاتی الجھنیں
اس حقییت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ایک مکمل اور کامیاب شخصیت کی تعمیر میں متعدد عوامل درکار ہوتے ہیں،جن میں جسمانی ، ذہنی ، روحانی ،نفسیاتی ، معاشرتی اور جذباتی عوامل شامل ہے۔ مگر مثالی شخصیت وہی ہے جس میں ان تمام عوامل میں توازن موجود ہو۔ یونیورسٹی آف وسکانسن کے محقق شان گرین کے مطابق ویڈیو گیمز انسانی شخصیت کو تبدیل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اْن کا ماننا ہے کہ ویڈیو گیمز کے استعمال کی نیچر ہی انسان کی شخصیت اور ذہنی کارکردگی پر پڑنے والے اثرات کا تعین کرتی ہے۔ جہاں یہ گیمز ذہن کو تیز اور چست بنا سکتی ہے وہیں ذہن کو ناکارہ بھی کر سکتی ہیں۔ اسی طرح 2019 میں آسٹریلیا میں ویڈیو گیمز کے بچوں کی ذہنی نشوونما پر اثرات کے حوالے سے جامع تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ حد گزری آن لائن گیمز کھیلنے والے بچوں کے دماغ میں عجب سی کشمکش پیدا ہوتی ہے، اور ان کے ذہنوں میں احساس محرومی اور انتقام لینے کی خواہشات بھی دوسرے بچوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں ہونے والی تحقیق میں یہ پایا گیا کہ جو بچے روزانہ ایک گھنٹے سے کم ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ دیگر بچوں کی نسبت معاشرے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، لیکن جو بچے روزانہ پانچ گھنٹے سے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ مجموعی طور پر اپنی زندگی سے کم مطمئن ہوتے ہیں۔
صحت اور جسمانی مسائل
2018ء میں یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے انسٹیٹیوٹ آف کینسر نے انتباہ جاری کیا تھا کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے، ادارے نے اپنی تحقیق میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی برقناطیسی شعاعیں بالغوں کے مقابلے بچوں کے دماغ میں زیادہ دور تک دھنس سکتی ہیں۔ اسی طرح آج ہر دوسرے بچے کو نظر کی عینک لگی دکھائی دیتی ہے ، نظر کی خرابی کوئی وبائی مرض نہیں بلکہ یہ انسان کا خود پیدا کردہ مسئلہ ہے ، جس میں سب سے بڑا کردار موبائل فون اور الٹرانک گیجٹز کے بے جااستعمال کا ہے۔
ماہرین صحت کیا کہتے ہیں؟
ماہرین صحت بچوں کے ویڈیو گیمز کے زیادہ استعمال پر سخت تشویش کا اظہارکرتے ہیں۔ انکے مطابق ویڈیو گیمز کا بے جا استعمال بچوں میں کلائی، گردن اور کہنی میں درد، نیند کی کمی اور خرابی، موٹاپا، کمزوری یا ہاتھوں میں بے حسی (Peripheral Neuropathy) کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ جب بچے گیمز کھیلنے سے قاصر ہوں تو بے چینی اور چڑچڑے پن کا احساس، پچھلی کھیلی گئیں گیمز کے بارے میں خیالات یا اگلے آن لائن سیشن کی توقع کے ساتھ دلچسپی رکھتے ہیں، گھریلو معاملات سے دور ہو جاتے ہیں، اور بلا خوف و خطر والدین سے جھوٹ بولنے لگتے ہیں۔
تعلیمی نقصان
آج المیہ یہ ہے کہ غیر نصابی سرگرمیوں کو نصابی تعلیم پر ترجیح دے دی گئی ہے ، جو کہ سراسر غلط ہے ، کھیل کود بلاشبہ زندگی کا ضروری حصہ ہیں، مگر انکے کیلئے تعلیم کو قربان کر دینا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ آج ویڈیو گیمز کے شوقین بچے تعلیم کو بھلا کر گیمز میں ہی اپنی زندگی بسا چکے ہیں۔ جس سے انکو بڑے نقصان کا سامنا ہے ، رات کو دیر تک جاگنے والا بچہ صبح تعلیمی سرگرمیوں میں کبھی ایکٹیو نہیں رہ سکتا۔ اور سکول کے اوقات میں بھی یا گیمز کھیلتا رہتا ہے یا گیمز کے بارے میں سوچتا ہے۔
آن لائن گیمز کے ممکنہ خطرات
حالیہ سالوں میں دو ایسی بڑی آن لائن گیمز کا نام ہم سب نے لازمی سنا ہوگا جو دنیا میں غلبہ رکھنے کے ساتھ نہایت متنازعہ رہی ہیں ، ان میں ایک ہے "پب جی" اور دوسری ہے "بلیو ویل"۔ ان دونوں گیمز کو پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑا، مگر وجہ کیا تھی ؟ وجہ یہی تھی کہ یہ گیمز انٹرٹینمنٹ سے زیادہ لوگوں بالخصوص بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا کر رہی تھیں، پاکستان سمیت پوری دنیا میں ان گیمز کی خاطر کئی بچوں اور نوجوانوں نے اپنی زندگی تک کا خاتمہ کیا۔ پاکستان کی بات کریں تو مئی، جولائی اور اگست میں لاہور میں پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر 16 ، 18 اور پھر 20 سالہ لڑکے نے خودکشی کرلی تھی، لہذا آن لائن گیمز کی بے ہنگم عادت ذہن کو اس حد تک بھی خراب کر سکتی ہیں، اسی طرح ان پر تشدد آن لائن گیمز کی صورت میں دوسروں کو قتل کرکے انکی املاک تباہ کیے جانے کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن اکثر یہ سلسلہ صرف گیم تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایسی گیمز کی عادت سے نوجوان اور بچے نشے اور برائیوں کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جرائم کے نت نئے طریقے سیکھ لیتے ہیں، کوئی شک نہیں کہ یہ گیمز لوگوں کو تشدد کرنے اور مار دھاڑ کے منفرد ہنر بھی سیکھا رہی ہیں۔ جو ملک میں جرائم کے اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں پب جی پر کچھ دنوں کیلئے پابندی لگائی گئی مگر اسے جلد ہی بحال کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح بلیو ویل گیم کو اب پوری دنیا میں اس مبینہ الزام پر بند کر دیا گیا ہے کہ یہ گیم لوگوں کو خود کشی کرنے کیلئے اکساتی تھی۔
ٹھوس حکمت عملی نقصان کم کر سکتی ہے
بچوں میں آن لائن اور ویڈیو گیمز کی بڑھتی ہوئی عادت کو ختم کرنے کا حل یہ نہیں کہ گیمنگ پر پابندی لگا دی جائے جس کے باعث ٹیکنالوجی میں ہم پیچھے رہ جائیں، اور بچوں کی انٹرٹینمنٹ ختم ہو جائے۔ بلکہ اسکا حل ٹھوس پلاننگ میں چھپا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہم چین کی لے سکتے ہیں، چند سالوں سے چین نے بچوں کے آن لائن گیم کھیلنے پر کرفیو سا ماحول عائد کر رکھا ہے، یعنی کہ ویڈیو گیم کھیلنے کے لیے اوقات کو کم کر دیاگیا ہے۔ ان پابندیوں کے تحت 18 سال سے کم عمر بچے رات 10 بجے سے صبح 8 تک آن لائن گیم نہیں کھیل سکتے، جب کہ دن کے اوقات میں بھی انہیں صرف 90 منٹ آن لائن گیم کھیلنے کی اجازت ہو تی ہے۔ اسی طرح 16 سال سے کم عمر بچے آن لائن گیمنگ پر ماہانہ صرف 28 ڈالر تک خرچ کر سکتے ہیں، جب کہ 18 سال یااس کے بڑی عمر والوں کے لیے یہ حد 56 ڈالرز ماہانہ رکھی گئی ہے۔ اسی طرح آن لائن گیم کھیلنے والے تمام افراد کو اپنے اصل نام سے رجسٹریشن کرانا ضرروی ہے۔ لہذا آن لائن گیمنگ کے منفی اثرات کو کم کرنے کو بچوں کو انکی عادت پڑنے سے بچانے کیلئے حکومتی سطح پر ایسی ٹھوس حکمت عملی پاکستان میں بھی اپنائی جا سکتی ہے۔
والدین کی ذمہ داری سب سے زیادہ
بچوں کو گیمنگ کے منفی اثرات سے بچانے کیلیے والدین کی ذمہداری سب سبے بڑی ہے، والدین کو چاہیے کہ سب سے پہلے تو بچوں کی گیمنگ کا ٹائم ٹیبل بنائیں جس میں گیمنگ کے اوقات کو بتدریج محدود کیا جانا چاہیے۔ بچوں کو بچپن ہی سے مصروف اور صحت سرگرمیوں میں مشغول کر دینا چاہیے، کیونکہ فارغ وقت میں بچے ویڈیو گیمز کا استعمال زیادہ کرنے لگتے ہیں ، اب جیسے کورونا کے خطرات کے باعث تعلیمی ادارے بند ہو چکے ہیں اور بچے تقریباً فارغ ہیں ، اس دوران والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں ، کورونا سے انکی حفاظت کے ساتھ انکے تعلیمی نقصان کو بھی کم سے کم کریں۔ سکولوں کی جانب سے بچوں کو ہوم ورک اور آن لائن کلاسز لینے کا کہا گیا ہے ، والدین کو چاہیے کہ نرمی یا سختی سے ہر صورت بچوں کو ان سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو گیمز کھیلنے پر مکمل پابندی لگا دیں بلکہ دن کا مناسب شیڈول بنانا ضروری ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ بچے زیادہ وقت فطرت کے ساتھ اسکرین کے بغیر گزار رہے ہوں یعنی انکو ویڈیو گیمز کے متبادل کھیل اور دوسری سرگرمیاں مہیا کی جانی چاہیں۔ بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور کر دینا ہر گز حل نہیں بلکہ ان کو ٹیکنالوجی کا مثبت اور موثر استعمال سکھانے کی ضرروت ہے، بچوں کو ایسے مشاغل کی طرف راغب کرنا چاہیے جس میں وہ کمپیوٹر کو سیکھیں اور خود نئے نئے پروگرامز کو ڈیزائن کرسکیں۔
اس کے علاوہ کسی بھی جسمانی سرگرمی، کوکنگ، کھیل کے حوالے سے انہیں یوٹیوب چینل شروع کرنے کی طرف بھی راغب کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ بھی والدین کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح بچے اگر گیمز کھیلنے سے زیادہ وقت اپنے گھر والوں بالخصوص بہن بھائیوں کے ساتھ گزاریں تو اسکے بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ پیار بڑھے گا ، اگر بچہ صرف گیمز کی طرف لگا رہے تو اس کیلئے فیملی بھی کہیں Misplaced Priority بن جاتی ہے۔ لہذا بچوں کے ساتھ بات چیت میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ وہ گھریلو معاملات میں زیادہ توجہ دے اور ان کا خود پر گھر والوں سے تعلقات کے حوالے سے اعتماد پختہ ہوسکے۔