لاہور: (وقاص ریاض) دور حاضر میں اگر بین الاقوامی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی تحقیق کا بغور جائزہ لیا جائے تو عوامی جمہوریہ چین کی جامعات صف اوّل میں نظر آئیں گی اور اس کی وجہ کو پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ چینی قوم کے سائنس دوست روّیے نے ہی ان کو اقوام عالم میں امتیازی حیثیت کا حامل بنایا ہے۔
ماضی پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ چین نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران پچھلی تمام دہائیوں سے زیادہ ترقی کی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 10 برس قبل چین کی محض دو یا تین جامعات دنیا کی 100 بہترین جامعات کی فہرست میں شامل تھیں جبکہ حال ہی میں جاری ہونے والی QS رینکنگ کے مطابق چین کی 20 جامعات دنیا کی 100 بہترین جامعات کی فہرست میں شامل ہو چکی ہیں جو ایک حیرت انگیز حقیقت ہے۔
ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے شعبے میں چین نے پچھلے کئی برسوں سے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں اور یہی قوت چین کی برق رفتار ترقی کے پیچھے کارفرما ہے، چینی قومی شماریات بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2020ء میں چین نے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں تقریباً ساڑھے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جو چین کی جی ڈی پی کا کل اڑھائی فیصد بنتا ہے اور ہر سال اس میں تقریباً 14 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، اس اہم سنگ میل کو عبور کرنے کے بعد چین امریکا کے بعد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے اور اگر چین اسی رفتار سے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرتا رہا تو آنے والے دنوں میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔
نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے 2022ء میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق امریکہ کا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں 27 فیصد ، چین کا 22 فیصد اور جاپان کا 7 فیصد حصہ ہے، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے انتظامی نظام میں اصلاحات کیلئے چین کی معروف نجی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی سرمایہ کاری کا دو تہائی حصہ نجی کاروباری اداروں نے فراہم کیا ہے، چین کی جانب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کے کئی نمایاں ثمرات بھی حاصل ہوئے ہیں، بنیادی تحقیق میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کی طویل فہرست موجود ہے جن میں خلائی مشن، گہرے سمندر کی کھوج، کوانٹم کمپیوٹنگ اور نینو ٹیکنالوجی نمایاں ہیں۔
چین نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنس ٹیک ایڈوائزری اور اخلاقیات کے لئے قومی سطح پر کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی کے نئے نظام نے سائنسدانوں کو پیچیدہ اور غیر ضروری سرخ فیتے کا ٹنے سے آزاد کرنے کے لئے بجٹ اور تحقیقی سمت پر مزید کنٹرول بھی دیا ہے، اس قدر حیرت انگیز حد تک مختلف شعبہ جات میں ترقی کر لینے کے باوجود اب بھی چین سمجھتا ہے کہ مزید بہتری کے لئے مزید اقدامات اور کاوشیں درکار ہیں اور وہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنا سکہ رائج کرنے کے لئے سرتوڑ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
چین دنیا بھر کیلئے نفع بخش کاروباری مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی ہے جس کی وجہ چین کی ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی کا ہونا ہے اور یہ ڈیڑھ ارب آبادی بھیڑ بکریوں کا ریوڑ نہیں بلکہ ایک انتہائی منظم، فرض شناس ، وقت کی پابند، آئین کی پاسدار اور اعلیٰ اقدار کی مالک ہے، یہ جب بھی سوچتے ہیں تو پوری قوم کا سوچتے ہیں نہ کہ کسی فرد واحد یا خاص طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو دوسروں پر فوقیت دے کر نوازتے ہیں۔
ہر آنے والے دن کو چینی گزرے ہوئے دن سے قدرے بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، ان کے معاشرے میں رنگ نسل ، سیاسی وابستگی، مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تقسیم نہیں پائی جاتی، یہاں قابلیت ہی واحد معیار ہے جو ان کو ایک دوسرے سے ممتاز اور نمایاں رکھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا کا یہ عظیم ملک آنے والے وقتوں میں حیرت انگیز طور پر ترقی کر کے نہ صرف دنیا کو اپنی جانب مکمل طور پر متوجہ کر لے گا بلکہ آدھے سے زیادہ ممالک کی بقاء کا انحصار بھی اسی ملک پر ہوگا، گزشتہ پانچ دہائیوں سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے یہ ملک اب ہر شعبے میں اپنا نام بنا چکا ہے اور مزید بہتری کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی معراج اور افق کو چھونے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے۔
وقاص ریاض سرکاری یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں ریسرچر ہیں، ان کے تحقیقی مضامین ملک کے موقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔