بیجنگ: (ویب ڈیسک) کمپیوٹنگ کی دنیا میں ’’ڈی این اے کمپیوٹر‘‘ ایک ایسی نئی جہت ہے جس میں مالیکیولر بائیولوجی، بائیو کیمسٹری اور ڈی این اے کی مدد سے ہارڈ ویئر تیار کیا جاتا ہے اور ڈی این اے خود کو سرکٹس میں جمع کر کے کمپیوٹنگ انجام دیتے ہیں۔
چین کی شنگھائی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی میں فی وانگ اور ان کے ساتھی کے عملی تجربے میں ثابت ہوگیا کہ ایک مائع کمپیوٹر ڈی این اے کے اسٹرینڈز کا استعمال کرتے ہوئے 100 بلین سے زیادہ مختلف سادہ پروگرام چلا سکتا ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ جب آپ روایتی یعنی ڈیجیٹل کمپیوٹر پر کمانڈ داخل کرتے ہیں تو یہ الیکٹرانوں کو سلیکون چپ پر مخصوص راستے سے گزرنے کی ہدایت کرتا ہے، یہ سرکٹ کنفیگریشنز ہر ایک مختلف ریاضیاتی آپریشنز سے مطابقت رکھتی ہیں۔
لیکن بائیو کیمسٹری اور مالیکیولر بائیولوجی کی مدد سے بنے کمپیوٹر میں ڈی این اے مالیکیول تاروں کے طور پر کام کرتے ہیں اور ان تاروں کو مخصوص طریقوں سے ترتیب دینے کی ہدایت کرتے ہیں جس سے ورسٹائل بائیولوجیکل کمپیوٹر سرکٹس بن جاتا ہے۔
ان سرکٹس اور وائرنگ کو ڈی این اے سے بدلنے کیلئے جیاؤ ٹونگ یونی ورسٹی کے وانگ اور ان کی ٹیم نے ڈی این اے کے چھوٹے حصوں کو بڑے ڈھانچے ڈھال کر ملایا جو سرکٹ کے اجزاء، جیسے تاروں، یا ان تاروں کو مختلف کنفیگریشنز بنانے کیلئے کام کر سکے۔
وانگ اور ان کی ٹیم نے ڈی این اے اسٹرینڈز اور بفر فلوئڈ کے ساتھ ٹیوبوں کو بھرا اور کیمیائی رد عمل کے ذریعے بڑے مالیکیولز میں ملا کر انہیں ایک دوسرے سے جوڑ دیا، اس طرح یہ عظیم کارنامہ سر انجام پایا۔
محققین نے تمام مالیکیولز کو فلوروسینس مارکر سے بھی لیس کیا تاکہ وہ اس بات پر نظر رکھ سکیں کہ سرکٹ کیا کر رہا ہے اس کی بنیاد پر اس کے حصے کیسے چمک رہے ہیں۔
وانگ اور ان کی ٹیم نے اس تجربے میں 500 ڈی این اے اسٹرینڈز پر مشتمل تین ڈی پی جی اے کو جوڑ کر ایک سرکٹ بنایا جو چوکور مساوات کو حل کرتا ہے، اسی طرح مربع مساواتوں کیلئے بھی ایک سرکٹ بنایا۔
ان سرکٹس میں انھوں نے ایک مخصوص شکل کے مالیکیولز اور ایک نمبر کو شامل کیا جس نے ان مالیکیولز کے ساتھ کیمیائی عمل میں حصہ لیا، اس کیمیائی عمل کے نتیجے میں حرکت کرنے والے الیکٹران کے مشابہ سرکٹ بن گئے۔
ہر سرکٹ کے نتائج آخری رد عمل سے پیدا ہونے والے مالیکیول تھے، محققین ان کی فلوروسینٹ چمک کی پیمائش کر کے انہیں پڑھ سکتے ہیں۔
ڈی این اے کمپیوٹر آپ کو بتا سکتا ہے کہ آیا آپ کا پینے کا پانی آلودہ ہے، یہ بیماریوں کا ڈیٹا رکھ سکتے ہیں اور بیماریوں کی جلد تشخیص میں کار آمد ہوسکتے ہیں، یہ کمپیوٹر صحت و تحقیق کے شعبے میں بھی انقلاب برپا کر دیں گے۔
یاد رہے کہ پہلا ڈی این اے کمپیوٹر 1997 میں یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے کمپیوٹر سائنس دان لیونارڈ اڈیلمین نے ایجاد کیا تھا۔