چین کی 6G نیٹ ورک کی تیاری میں اہم پیشرفت

Published On 16 October,2023 07:16 pm

بیجنگ: (ویب ڈیسک)چین جدید سیلولر ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لیے نمایاں پیشرفت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ابھی تک ففتھ جنریشن (5 جی) ٹیکنالوجی متعارف نہیں ہوسکی مگر چین کے سائنسدانوں نے ایک بڑی پیشرفت کی ہے جس سے تیز ترین سیٹلائیٹ انٹرنیٹ کا راستہ کھل جائے گا، سائنسدانوں کے مطابق یہ 6 جی نیٹ ورکس کی تیاری کے عمل کا اہم ترین حصہ ہے۔

چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے زیرتحت شیان انسٹیٹیوٹ آف آپٹکس اینڈ Precision Mechanics کے سائنسدان ایک دہائی سے زائد عرصے سے ایسی سوئچنگ کمیونیکیشن ڈیوائس تیار کرنے پر کام کر رہے تھے جو ڈیٹا ٹرانسمیشن کی اسپیڈ بڑھا سکے۔

اس کمیونیکیشن ڈیوائس کو اگست 2023 میں وائے 7 راکٹ کے ذریعے زمین کے مدار میں سیٹلائیٹ میں نصب کرکے بھیجا گیا تھا، زمین کے مدار میں اس ڈیوائس نے ایک جگہ سے دوسری جگہ لائٹ سگنلز کو برقی سگنلز میں تبدیل کیے بغیر بھیجنے میں کامیابی حاصل کی، درحقیقت اس نے کسی آئینے کی طرح کام کیا۔

اس ڈیوائس کو سپیس بورڈ آپٹیکل سوئچنگ ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا ہے اور یہ پہلی بار ہے جب چین کی جانب سے ایک سیٹلائیٹ میں اس طرح کی ڈیوائس کی کامیاب آزمائش کی گئی۔

سائنسدانوں کے مطابق اس ڈیوائس کے ڈیٹا کو جب زمین پر ڈاؤن لوڈ کیا گیا تو تمام تر تفصیلات برقرار رہیں اور ڈیٹا کو نقصان نہیں پہنچا، اس طرح کی ڈیوائسز کو کمیونیکیشنز نیٹ ورکس کا اہم ترین حصہ مانا جاتا ہے جو ایک مخصوص سمت میں ڈیٹا کو تقسیم کرتی ہیں، مثال کے طور پر اسی طرح ہماری فون کال مخصوص فرد تک پہنچتی ہے۔

روایتی سوئچنگ ڈیوائسز لائٹ سگنلز کو بجلی استعمال کرکے ڈیجیٹل ڈیٹا میں تبدیل کرتی ہیں، مگر نئی ڈیوائس اس کے بغیر کام کرتی ہے، سائنسدانوں کے مطابق اس طریقہ کار کی بدولت خصوصی سوئچنگ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کا خرچہ بچانا ممکن ہوگا۔

سیٹلائیٹ ریموٹ سنسنگ کی تیاری سے ڈیٹا کی تیز رفتاری سے منتقلی اور 6 جی موبائل کمیونیکیشن کا عمل ممکن ہوگا،سائنسدانوں کے مطابق 6 جی جیسے کمیونیکیشن نیٹ ورکس میں سیٹلائیٹس کا کردار بہت اہم ہوگا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل تخمینہ لگایا گیا تھا کہ دنیا میں 6 جی ٹیکنالوجی کی آمد 2030 سے قبل ممکن نہیں ہوسکے گی، 6 جی ٹیکنالوجی کے بارے میں ابھی کچھ زیادہ تفصیلات تو موجود نہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے ہولوگرافک کمیونیکیشن کو سائنس فکشن سے نکال کر حقیقت بنانے میں مدد ملے گی۔