کراچی: (دنیا نیوز) سندھ ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) کی بندش کے خلاف درخواستوں پر آئندہ سماعت تک ایکس سے خط وکتابت کا ریکارڈ طلب کر لیا۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کے روبرو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کی بندش کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل معیز جعفری ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ محکمہ داخلہ کے سیکشن آفیسر نے چیئرمین پی ٹی اے کو خط لکھ کر ایکس (ٹوئٹر) بند کرنے کا کہا، متنازع مواد کا تعین کرنا ریگولیٹر کا کام ہے، یہاں ریگولیٹر انتظامیہ کے ماتحت کام کررہے ہیں جبکہ یوٹیوب پر اس سے کہیں زیادہ متنازع مواد تاحال موجود ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ضیاء الحق مخدوم نے موقف اپنایا کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا صارف کیوں متاثرہ فریق نہیں ہے؟ ضیاء الحق مخدوم نے موقف دیا کہ پی ٹی اے کی پالیسی 2009 میں تیار کی گئی، پالیسی کے تحت حکومت پی ٹی اے کو ٹیلی کام سروس سے متعلق احکامات دے سکتی ہے، اگر سوشل میڈیا کمپنی متنازع مواد ہٹانے میں ناکام رہتی ہے تو حکومت بندش کا حکم دے سکتی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 17 فروری کو ایکس کو بلاک کیا، آپ ہمیں اپریل کا لیٹر دکھا رہے ہیں، ٹوئٹر کو بھیجا گیا لیٹر کہاں ہے؟ آپ نے اپنی دستاویز میں نہیں لگایا، قانون کہتا ہے کہ کمپنی سے شکایت کے حل میں ناکامی کی صورت میں ایسا کیا جاسکتا ہے، وہ خط کہاں ہے جس میں وجوہات کی بنیاد پر شکایت کی گئی ہو؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف دیا کہ ایکس کو 1418 شکایات کی گئیں، ایکس نے صرف 103 شکایات پر مواد ہٹایا، 1183 شکایات پر تاحال فیصلہ نہیں کیا گیا، روزانہ کی بنیاد پر ای میل کے ذریعے ٹوئٹر سے خط و کتابت ہوتی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ مواد ہٹانے کی درخواستیں کس بنیاد پر مسترد کی گئیں؟ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ کارروائی یقیناً بندش کے نوٹی فکیشن سے پہلے کی ہو گی؟ مواد ہٹانے کی درخواست کس بنیاد پر مسترد کی وہ وجوہات جاننا چاہتے ہیں۔
ضیاء الحق مخدوم نے موقف دیا کہ ٹوئٹر سے خط و کتابت خفیہ دستاویز ہے، ہم ریکارڈ عدالت کو فراہم کردیں گے، عدالت چاہے تو فریقین کو فراہم کرسکتی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مکمل رپورٹ کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں صرف شکایت کی بنیاد اور ایکس کا جواب چاہیے۔
بعدازاں عدالت نے آئندہ سماعت تک ایکس (ٹوئٹر) سے خط و کتابت کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔