لاہور: (محمد علی) آرٹیفشل انٹیلی جنس (AI) کو جدید ٹیکنالوجی کا سب سے انقلابی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے، یہ ٹیکنالوجی نہ صرف صنعتوں کو تبدیل کر رہی ہے بلکہ معاشروں کے سماجی اور معاشی ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
ایک اہم سوال جو اکثر اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا AI کے پھیلاؤ سے ملازمت کے مواقع کم ہوں گے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا؟ اس مضمون میں ہم AI کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیں گے، نوکریوں کے ضائع ہونے اور نئے مواقع کے درمیان توازن تلاش کریں گے اور مستقبل کے لئے تجاویز پیش کریں گے۔
نوکریوں کا ضیاع: خطرات اور شواہد
اے آئی (AI) کی بنیاد پر مشین لرننگ، روبوٹکس اور آٹومیشن نے پہلے ہی کئی شعبوں میں انسانی محنت کی جگہ لینی شروع کر دی ہے، مثال کے طور پر: مینوفیکچرنگ: روبوٹس تیزی سے اسمبلی لائنوں پر کام کر رہے ہیں، کسٹمر سروس: چیٹ بوٹس اور ورچوئل اسسٹنٹس انسانی نمائندوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن: خودکار گاڑیوں سے ڈرائیوروں کی مانگ کم ہونے کا خدشہ ہے۔
مک کنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ کا اندازہ ہے کہ 2030ء تک دنیا بھر میں 40 سے 80 کروڑ افراد کو نوکریاں بدلنے یا نئی مہارتیں سیکھنے کی ضرورت پڑے گی، خاص طور پر وہ کام جو بار بار دہرائے جاتے ہیں (جیسے ڈیٹا انٹری، سادہ حساب کتاب)،AI کے ذریعے آسانی سے خودکار ہو سکتے ہیں۔
نئے مواقع AI کا دوسرا رخ
ہر ٹیکنالوجی کی طرح AI کا بھی دہرا کردار ہے، جہاں یہ کچھ پیشوں کو ختم کرے گی وہیں نئی صنعتیں اور ملازمت کے شعبے پیدا بھی کرے گی، مثال کے طور پر سافٹ ویئر انجینئرز، ڈیٹا سائنٹسٹس اور AI ماہرین کی مانگ بڑھے گی، مشینوں کی دیکھ بھال اور ٹربل شوٹنگ کیلئے نئے ٹیکنیشنز درکار ہوں گے، AI کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹرز مریضوں کی بہتر تشخیص کر سکیں گے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 2025ء تک AI اور آٹومیشن سے 9 کروڑ70 لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی، خاص طور پر ٹیکنالوجی، صحت اور توانائی کے شعبوں میں۔ نوکریوں کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا مطلب ہے کہ موجودہ اور مستقبل کی لیبر فورس کو نئی مہارتیں سیکھنی ہوں گی، ری سکلنگ اور اپ سکلنگ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہر شعبے میں کم از کم بنیادی AI اور ڈیٹا انالیٹکس کی سمجھ ضروری ہوگی، مشینوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے انسانوں کو تنقیدی سوچ، تخلیقی حل اور جذباتی ذہانت پر توجہ دینی ہوگی، حکومتوں اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالیں خصوصاً STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) پر توجہ بڑھائیں۔
AIکے معاشی اثرات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ معاشرے اس تبدیلی کو کتنی احتیاط سے بروئے کار لاتے ہیں، اگر آمدنی اور مواقع میں عدم مساوات بڑھی تو سماجی بے چینی پیدا ہو سکتی ہے، یونیورسل بیسک انکم (UBI) یعنی خودکار معیشتوں میں شہریوں کو بنیادی آمدنی کی ضمانت اس کا ممکنہ حل ہو سکتی ہے۔
علاوہ ازیں AI سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کر کے ری ٹریننگ پروگراموں کو فنڈ کیا جا سکتا ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ ہر صنعتی انقلاب (سٹیم انجن، بجلی، کمپیوٹر) نے ابتدا میں بے روزگاری کا خوف پیدا کیا لیکن نئی صنعتوں نے زیادہ نوکریاں دیں، مثال کے طور پر 19 ویں صدی میں کھیتی باڑی کی جگہ فیکٹریوں نے لی مگر لوگوں نے نئے ہنر سیکھے، اسی طرح AI بھی انسانوں کو زیادہ پیچیدہ اور تخلیقی کاموں پر مرکوز ہونے کا موقع دے سکتی ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں جہاں لیبر فورس زیادہ اور مہارتیں کم ہیں AI کا اثر مختلف ہو سکتا ہے، مثال کے طور پر کال سینٹرز اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں آٹومیشن سے بے روزگاری بڑھ سکتی ہے، تاہم ان ممالک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور تعلیمی اصلاحات پر توجہ دی جائے تو وہ AI سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جیسے زراعت میں AI کے استعمال سے پیداوارمیں اضافہ وغیرہ، AI کے استعمال میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ڈیٹا پرائیویسی اور ملازمت کے تحفظ کے قوانین بنائیں، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کمپنیاں اور حکومتیں مل کر ری ٹریننگ پروگرام چلائیں، آرٹیفشل انٹیلی جنس کو روکا نہیں جا سکتا لیکن اس کے اثرات کو منظم کیا جا سکتا ہے، یہ ٹیکنالوجی اگرچہ کچھ نوکریاں ختم کرے گی لیکن نئے شعبے بھی جنم دے گی، اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی لیبر فورس کو اس قابل بنائیں کہ وہ تبدیلیوں کے ساتھ قدم ملا سکے۔
تعلیم، حکومتی پالیسیاں اور سماجی شعور ہی وہ ستون ہیں جو AI کے دور میں بے روزگاری کے طوفان سے بچا سکتے ہیں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی انسانوں کا بنایا ہوا ایک آلہ ہے، اس کا استعمال ہمارے ہاتھ میں ہے۔
محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں۔