بحیرۂ اسود کے 5 تاریخی شہر

Last Updated On 28 February,2019 09:28 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) بحیرۂ اسود کا پانی بہت سے ممالک کی سرزمین سے ٹکراتا ہے۔ اس کے کنارے بہت سے تاریخی، اہم اور خوبصورت شہر آباد ہیں۔ آئیے ایسے پانچ شہروں کے بارے میں جانتے ہیں۔

اوڈیسا

بحیرۂ اسود کے شمال مغربی ساحل پر واقع شہر اوڈیسا آبادی کے لحاظ سے یوکرین کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہ بندرگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کے لیے پُرکشش مقام ہے۔ اس شہر کو بعض اوقات بحیرۂ اسود کا موتی بھی کہا جاتا ہے۔ اس مقام پر قدیم یونانی دور میں آبادیاں قائم تھیں۔ اس کے نزدیک پندرہویں صدی کی تاتاری آبادی کے آثار بھی ملے ہیں۔ شہر کی باقاعدہ بنیاد روسی ملکہ کیتھرین اعظم کے حکم پر 1794ء میں رکھی گئی۔ انیسویں صدی میں اوڈیسا روسی سلطنت کا چوتھا بڑا شہر تھا۔ سوویت یونین کے دور میں گرم پانیوں کی یہ بندرگاہ سب سے اہم خیال کی جاتی تھی۔ یہاں سوویت بحریہ کا اڈہ بھی تھا۔ یہاں رہنے والوں کی اکثریت یوکرینی ہے لیکن روسی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔

باتومی

یہ جارجیا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ باتومی کی بندرگاہ تجارت کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کی وجہہ شہرت سیاحت اور جوا ہے۔ یہ شہر قدیم یونان کی نوآبادی ’’کولکِس‘‘ میں شامل تھا۔ رومی بادشاہ ہاڈریان (117ء تا 138ء) کے دور میں شہر کے گرد فصیل قائم کی گئی۔ رومی بادشاہ جسٹینین اول کے دور میں جب ایک اور شہر پیٹرا کو قلعہ نما شکل دی گئی تو شہر بے آباد سا ہو گیا۔ جب مسلمانوں نے اسے فتح کیا، یہ بازنطینی افواج کے قبضے میں تھا لیکن وہ اسے زیادہ دیر برقرار نہ رکھ سکے۔

گیارہویں صدی میں یہ جارجیائی سلطنت میں شامل ہو گیا۔ پندرہویں صدی میں عثمانی ترک کچھ عرصہ قابض رہنے کے بعد واپس ہوئے اور ایک صدی بعد دوبارہ آئے۔ انہوں جارجیائی افواج کو زبردست شکست دی۔ تاہم بعدازاں جارجیائی متعدد بار حملہ آور ہوئے اور قبضہ کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ بالآخر 1723ء میں یہ شہر سلطنت عثمانیہ کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔ 1877-78ء میں ہونے والی روس ترک جنگ کے نتیجے میں یہ سلطنت روس کا حصہ بن گیا۔ 1901ء میں، روس کے ’’اکتوبر انقلاب‘‘ سے 16 برس قبل سوویت یونین کا مستقبل کا رہنما جوزف سٹالن یہاں ہڑتالیں منظم کرتا رہا۔ 1918ء میں پہلی عالمی جنگ کے اختتامی دنوں میں یہ شہر دوبارہ عثمانیوں کے پاس چلا گیا۔ کمال اتا ترک نے اس شرط پر یہ شہر سوویت یونین کے بالشوویکس کے حوالے کیا کہ وہ اسے خودمختاری دیں گے تاکہ یہاں کی مسلم آبادی محفوظ رہے۔ 1989ء میں جب جارجیا کو سوویت یونین سے آزادی ملی تو یہ جارجیا کے حصے میں آیا۔

بورگاس

بورگاس بلغاریہ کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ یہ اہم صنعتی، ثقافتی اور سیاحتی مرکز ہے۔ اس شہر میں خطے کی سب سے بڑی آئل ریفائنری ہے۔ اس علاقے میں انسانی آبادی کے آثار تقریباً تین ہزار سال قدیم ہیں۔ سمندر کے ساتھ زرخیز میدانوں کی وجہ سے لوگ عہدِ عتیق کی شروعات سے یہاں آتے رہے۔

یہاں ہند یورپی تھراسی قبائل کے آثار بہت زیادہ ملے ہیں جو چوتھی صدی قبل مسیح کے ہیں۔ دارا اعظم کے دور میں یہ ہخامنشی سلطنت کا حصہ رہا۔ بازنطینی دور میں یہ شہر بحیرۂ اسود کی اہم بندرگاہ تھا۔ بلغاریہ کے دوسرے علاقوں کی طرح چودہویں صدی کے اواخر میں عثمانیوں نے اسے بھی فتح کر لیا لیکن جوں ہی بایزید اول کے جانشینوں میں اختلاف سے سلطنت عثمانیہ میں خانہ جنگی پھیلی، یہ بازنطینیوں کے پاس چلا گیا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں یہاں ڈاکو اتنی بار حملہ آور ہوئے کہ شہر کی آبادی نقل مکانی کر گئی۔ تاہم کچھ عرصہ بعد یہ شہر بحال ہو گیا اور معاشی اہمیت اختیار کر گیا۔ 1890ء میں یہاں ریلوے لائن بچھائی گئی اور 1903ء میں گہرے پانیوں کی بندرگاہ قائم کی گئی۔ اس سے شہر میں صنعت کاری کا عمل تیز ہو گیا۔ آج یہ شہر بلغاریہ کے اہم معاشی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ 18 جولائی 2012ء کو اسرائیلی سیاحوں پر بلغاریہ میں ہونے والا خود کش حملہ اسی شہر میں ہوا تھا۔

کونسٹانٹا

یہ رومانیہ کا سب سے قدیم آباد شہر ہے۔ اس کی بنیاد 600 قبل مسیح میں ملکہ ٹومیریس نے رکھی۔ وہ قدیم ایرانی قبائل کی کنفیڈریشن کی ملکہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سائرس اعظم کے حملے کا اس نے نہ صرف دفاع کیا بلکہ اسے ہلاک بھی کیا۔ 29 قبل مسیح میں رومیوں نے اس پر قبضہ کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔

پہلے رومی بادشاہ آگسٹس نے رومی شاعر اوویڈ (43 قبل مسیح تا 17ء )کو اسی شہر میں جلا وطن کیا تھا، جہاں اس نے اپنی زندگی کے بقیہ آٹھ برس گزارے۔ اس نے اپنی جلا وطنی کو اپنی نظموں میں بیان کیا ہے۔ شاعر کا مجسمہ بھی شہر میں موجود ہے۔ پانچویں صدی کے بعد یہ شہر مشرقی رومی سلطنت کا حصہ بن گیا ۔ یہ سیکڑوں برس تک سلطنت بلغاریہ کا حصہ رہا اور پھر عثمانیوں نے 1419ء کے لگ بھگ اسے فتح کر لیا۔ 1817ء میں رومانیہ کی جنگ آزادی کے بعد یہ سلطنت عثمانیہ سے رومانیہ کے پاس چلا گیا اور ملک کی اہم ترین بندرگاہ اور برآمدی مرکز بن گیا۔

پہلی عالمی جنگ میں جرمن، ترک اور بلغاری فوجوں نے اس پر قبضہ کیا جسے بعد ازاں اتحادیوں نے چھڑا لیا۔ دوسری عالمی جنگ میں جب رومانیہ نے ہٹلر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو شہر اتحادیوں کی بمباری کا نشانہ بنا۔ اس سے بندرگاہ کو خاصا نقصان ہوا اور وہ 1950ء کی دہائی میں بحال ہوئی۔

استنبول

استنبول کو ماضی میں بازنطیم اور قسطنطنیہ کہا جاتا تھا۔ یہ ترکی کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ ملک کا معاشی، ثقافتی اور تاریخی مرکز ہے۔ یہ براعظم ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس کی بنیاد 660 قبل مسیح میں رکھی گئی اور جلد ہی یہ ایک اہم شہر کی شکل اختیار کر گیا۔ 330 قبل مسیح میں قسطنطنیہ کے نام سے اس شہر نے اپنی پہچان بنائی اور پھر 16 صدیوں تک مختلف سلطنتوں کا دارالحکومت رہا۔ رومی اور بازنطینی دور میں یہ مسیحیت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔
مخصوص جغرافیائی نوعیت کے باعث اس پر قبضہ کرنا آسان نہ تھا۔ 1453ء میں 21 سالہ عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کر لیا۔ عثمانیوں نے شہر کو اپنی سلطنت کا مضبوط گڑھ بنا دیا۔ یہ شہر شاہراہ ریشم کے راستے میں واقع تھا۔ بعد ازاں اسی سے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ریل کی پٹری گزر کر جاتی تھی۔ اس لیے اس نے بہت زیادہ اہمیت اختیار کیے رکھی۔