لاہور: (روزنامہ دنیا) امریکی ڈالر کی باقاعدہ شروعات امریکی ’’کانٹی نینٹل کانگرس‘‘ نے آٹھ ستمبر 1786ء کو کی۔ البتہ ڈالر کا ماضی سولہویں صدی تک جاتا ہے جس میں قصبہ ’’باواریا‘‘ کا نام بھی آتا ہے۔
ڈالر کیسے بڑی اور تسلیم شدہ کرنسی بنا؟ ڈالر کی قدر کا ماخذ کیا ہے؟ آئیے اس بارے میں جانتے ہیں۔
1518ء میں ڈالر کی ابتدا
جب کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ امریکی ڈالر کا آغاز کہاں سے ہوا تو اکثر اوقات وہ اندازے سے کہتا ہے، امریکا سے لیکن یہ پورا سچ نہیں، بہت سے تاریخ دانوں کے مطابق ڈالر کا آغاز ایک چھوٹے سے قصبے باواریا سے ہوا۔
1518ء میں اس قصبے نے چاندی کے معیاری سکے جاری کرنے کا آغاز کیا۔ چاندی کو قریبی کانوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ ان سکوں کا معیاری وزن 29.2 گرام تھا۔
ان سکوں کو ’’تھالر‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ جرمن میں ’’تھال‘‘ کے معنی ہیں ’’وادی‘‘ اور یہ سکے ایک وادی سے بن کر آتے تھے۔ جلد ہی یورپ بھر میں معیاری کرنسی کی اہمیت کو محسوس کیا جانے لگا۔
ملکوں نے معیاری تھالر سکے کو کامرس کے لیے اختیار کر لیا۔ مختلف حکومتیں مختلف طرح کی چاندی استعمال کرتیں اور اس کی پیداوار کے طریقے بھی مختلف ہوتے لیکن بنائے جانے والے تمام تھالر ایک جیسے ہوتے۔
یوں یورپ میں تھالر ایک معیار بن گیا۔ اب آپ غور کریں تو تھالر اور ڈالر کی ادائیگی ایک جیسی ہے۔ یوں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لفظ ڈالر کا ماخذ کیا ہے۔
چاندی کا ہسپانوی ڈالر
جب ’’پرانی دنیا‘‘ نے ’’نئی دنیا‘‘ کو تلاش کرنے کا آغاز کیا تو تھالر یا ڈالر زیادہ جگہوں پر پھیل گیا۔ ہسپانوی مہم جوؤں نے میکسیکو اور دیگر نوآبادیوں میں قیمتی معدنیات دریافت کیں۔
انہوں نے انہیں استعمال میں لاتے ہوئے چاندی کے ہسپانوی ڈالر بنانے شروع کیے۔ چند ہی سالوں میں چاندی کا ہسپانوی ڈالر براعظم شمالی و جنوبی امریکا کی نو آبادیوں میں سب سے عام برتا جانے والا سکہ بن گیا۔
عام ہونے کے باوجود یہ واحد رائج سکہ نہیں تھا۔ ’’پرانی دنیا‘‘ کے چاندی کے سکے بھی ’’نئی دنیا‘‘ یعنی پورے شمالی اور جنوبی امریکا میں رائج تھے۔ اس سے کاروباری لین دین میں پیچیدگیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ اس لیے امریکا نے ایک معیاری کرنسی رائج کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔
امریکا کے قیام سے پہلے ڈالر
جب امریکا باقاعدہ ملک نہیں بنا تھا، نوآبادیوں کو کسی نہ کسی چیز کو کرنسی تو بنانا تھا۔ امریکا میں زر کی بنیادوں کو سترہویں صدی کے میساچوسٹس میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ 1690ء میں ’’میساچوسٹس بے کالونی‘‘ نے عسکری اخراجات کے لیے کاغذ کے نوٹ استعمال کرنا شروع کیے۔
اس نظام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے دوسری نوآبادیوں نے جلد اسی راہ کو اپنا لیا۔ بالآخر برطانیہ نے نوآبادیوں کی ان ابتدائی کرنسیوں پر پابندی لگا دی۔ 1775ء میں جس وقت برطانیہ مخالف جذبات بڑھ رہے تھے ’’کانٹی نینٹل کانگرس‘‘ نے کانٹی نینٹل‘‘ کرنسی کو باقاعدہ معیار قرار دے دیا۔ تاہم یہ کرنسی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ اس کی مالیاتی بنیادیں مستحکم نہ تھی اور اس کے نوٹوں کی نقل آسانی سے بن جاتی تھی۔
کانگرس کا تھالر کو سرکاری کرنسی بنانے کا فیصلہ
امریکی انقلاب کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا کی کانگرس کو ایک بڑا فیصلہ کرنا تھا، نئے بننے والے ملک کی سرکاری کرنسی کیا ہوگی؟ 1785ء میں امریکی کانگرس نے یورپی تھالر کو پورے امریکا میں معیار مان لیا۔
اس مرحلے پر جرمن لفظ ’’تھالر‘‘ کو انگریزی روپ دیتے ہوئے ’’ڈالر‘‘ بنا دیا گیا۔ دونوں ایک ہی طرح سے ادا کیے جاتے تھے۔ 1792ء کے ’’کوائن ایج ایکٹ‘‘ نے امریکی ڈالر کو قومی کرنسی بنانے کی بنیادیں مزید مستحکم کر دیں۔
اس ایکٹ کے نفاذ سے مالیات کا منظم نظام وجود میں آیا جس میں سونے، چاندی اور کانسی کو برتا گیا۔ یو ایس ڈالر ’’پرانی دنیا‘‘ میں استعمال ہونے والے اصل تھالر کی نسبت قدرے ہلکا تھا۔ یہ 27 گرام چاندی پر مشتمل تھا۔
1861ء اور خانہ جنگی
امریکا میں خانہ جنگی 1861ء اور 1865ء کے درمیان ہوئی۔ اس وقت امریکا کو ایک بڑے مسئلے کا ادراک ہوا۔ اسے جنگ کے لیے زر کی ضرورت تھی لیکن اس کے پاس سونے، چاندی اور کانسی کا محدود ذخیرہ تھا۔ پس امریکا نے 1861ء میں کاغذ کے نوٹ یا ’’گرین بیک‘‘ جاری کرنا شروع کر دیے تاکہ خانہ جنگی کو مالی مدد فراہم کی جا سکے باوجود اس کے کہ روایتی دھاتی سکوں کی نسبت کاغذ کے نوٹوں کی نقل تیار کرنا آسان تھا۔
اسی دوران امریکی خزانے نے نقلی نوٹوں سے نپٹنے کے مختلف اقدامات شروع کر دیے، ان میں خزانے کی مہر اور کندہ شدہ دستخط شامل تھے۔ 1863ء میں کانگرس نے قومی بینکنگ نظام متعارف کروایا جس نے امریکی ٹریژری کو قومی بینک کے نوٹوں کی نگرانی کا اختیار دیا۔ اس سے قومی بینکوں کو زر تقسیم کرنے اور امریکی بانڈز خریدنے میں زیادہ آسانی ہوئی تاہم اسے ریگولیٹ کیا جاتا تھا۔
فیڈرل ریزرو ایکٹ 1913ء
اس ایکٹ سے ایک مرکزی بینک تخلیق ہوا اور قومی سطح کے بینکنگ نظام کو متعارف کرایا گیا۔ ان دو کا مقصد ملک کی تیزی سے بدلتی مالیاتی صورت حال سے نپٹنا تھا۔ چاندی اور سونے سے رشتہ: ماضی میں تھالر یا ڈالر کی بنیاد چاندی کی قیمت تھی۔ البتہ آج کل ڈالر کی طرح زیادہ تر کرنسیوں کی قدر سونے کی قیمت سے منسلک ہے۔ یہ تبدیلی کب ہوئی؟ تاریخ کے ادوار میں چاندی اور سونے کی تجارت کا تناسب کم و بیش ایک جیسا رہا ہے۔ یوں تجارت میں ایک ’’دو دھاتی نظام‘‘ رائج تھا۔
کئی صدیوں تک سونے کے ایک اونس کی قیمت چاندی کے 15 یا 16 اونس کے برابر رہی۔ تھالر نظام نے چاندی کی قیمت کے ساتھ سونے کو بھی معیار بخشا۔ پھر سونے کو زیادہ مستحکم جنس سمجھا جانے لگا اور یہ کرنسی کی قدر کا زیادہ پسندیدہ پیمانہ بن گیا۔
برطانیہ نے پرانے ’’دو دھاتی‘‘ نظام کو 1816ء میں خیرباد کہہ دیا اور اس کی جگہ یک دھاتی نظام اپنا لیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا نے 1834ء میں اس کی پیروی کی، تاہم سرکاری سطح پر یک دھاتی نظام 1900ء میں نافذ کیا گیا۔
1834ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے کوائن ایج ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ سے امریکی ڈالر کی قدر 20.67 ڈالر فی اونس (سونا) طے ہوئی۔ ہر ڈالر کی قیمت تقریباً 1.5048 گرام سونے کے مساوی تھی۔
1933ء میں ڈالر کی قیمت میں مستقل کمی
1933ء میں امریکا عظیم کسادی بازاری کی زد میں تھا۔ معیشت کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے امریکا نے ڈالر کی قدر کم کر دی اور یہ 35 ڈالر فی اونس ہو گئی۔
اب ایک ڈالر تقریباً 0.8887 گرام کا ہوگا۔ 1971ء میں ڈالر کی قدر میں پھر کمی کی گئی۔ امریکی معیشت میں ترقی کے ساتھ دنیا بھر میں ڈالر میں کاروبار ہونے لگا۔ آج ڈالر دنیا کی سب سے عام ریزرو کرنسی ہے۔