برطانیہ میں کورونا وائرس انوکھی تحقیق کیلئے استعمال ہو گا

Published On 28 October,2020 05:02 pm

لندن: (ویب ڈیسک) برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ریسرچ سٹڈی شروع کر رہے ہیں جس میں صحتمند رضاکاروں کو کورونا لگایا جائے گا تاکہ معلوم ہو سکے کہ کسی شخص کو متاثر کرنے کے لیے وائرس کی کتنی مقدار یا طاقت درکار ہوتی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس تحقیق کو ’دی ہیومن چیلنج پروگرام‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں لندن کا امپیریل کالج بھی بطور پارٹنر شریک ہے۔ محققین کو امید ہے کہ یہ تحقیق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے، اس کے اثرات اور اموات کو کم کرنے میں مدد کرے گی۔

محققین کے مطابق یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہوگی اور اس کے پہلے مرحلے میں اس امکان کا جائزہ لیا جائے گا کہ رضاکاروں کو ’سارس کوو 2 کورونا وائرس‘ کے سامنے ایکسپوز کیا جائے۔ تحقیق کے لیے 18 سے 30 برس کے ایسے صحتمند رضاکاروں کو لیا جائے گا جن کو دل، ذیابیطس یا موٹاپے کی بیماری نہ ہو۔

امپیریل کالج کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں مقصد وائرس کی اس کم سے کم مقدار کا تعین ہے جس سے کسی شخص میں کووڈ 19 کا انفیکشن ظاہر ہوتا ہے۔

امپیریل کالج میں تجرباتی ادویات کے شعبے کے پروفیسر پیٹر اوپنشا نے کہا ہے کہ رضاکاروں میں ناک کے ذریعے وائرس منتقل کیا جائے گا۔ ریسرچ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم ہر مرحلے پر رضاکاروں کو قریب سے دیکھ سکیں گے۔ نہ صرف یہ کہ انفیکشن کے دوران بلکہ اس سے قبل اور ہر مرحلے پر ہونے والی تبدیلیوں کو کا تجزیہ کیا جا سکے گا۔

محققین اس ریسرچ کے نتائج کو ویکسین کے اثرات اور علاج کے طریقے دریافت کرنے کے لیے استعمال کر سکیں گے۔ محققین کا کہنا ہے کہ چونکہ ریسرچ میں رضاکاروں کو خود سے انفیکٹ جائے گا اس لیے سائنسدانوں کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ دیکھ سکیں کہ جن رضاکاروں کو ویکسین دی گئی کیا وہ وائرس سے محفوظ رہے یا ان پر وائرس کے اثرات کم رہے۔

امپیریل کالج میں متعدی امراض کے شعبے کے پروفیسر کرس چیو نے کہا کہ ہماری پہلی ترجیح رضاکاروں کی حفاظت ہوگی۔ کوئی بھی تحقیق میں خطرات سے خالی نہیں ہوتی مگر اس پروگرام میں محققین کی پوری کوشش ہوگی کہ خطرے کو کم سے کم کیا جائے۔

پروفیسر کرس چیو کا کہنا تھا کہ اس تحقیقی پروگرام کے ذریعے برطانیہ اور دنیا بھر کے لوگوں کو وبا سے بچانے کے لیے مدد لی جائے گی۔ یہ تحقیق اگلے برس کے اوائل میں شروع کی جائے گی اور اس میں حکومت، ایک کلینیکل کمپنی اور ہسپتال بھی پارٹنر ہیں۔
 

Advertisement