کورونا کی تشخیص، ایئر پورٹ پر کتے تعینات

Published On 26 December,2020 07:42 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وباء تیزی کیساتھ بڑھ رہی ہے جہاں پر کچھ ممالک اس وباء سے نمٹنے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہیں وہیں پر چلی سے ایک انوکھی خبر آئی ہے جہاں پر ایک ہوائی اڈے پر مسافروں میں کورونا کی علامات کا سراغ لگانے کے لیے کتے تعینات کر دیے گئے ہیں جو آنے جانے والے مسافروں کے سامان کو سونگھ کر کورونا وائرس کا سراغ لگاتے ہیں۔

چلی کے سینٹیاگو انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر مسافر صحت کاؤنٹرز پر خصوصی پیڈز رکھے گئے ہیں۔ مسافر اپنی ناک، گردن اور کلائیوں کو اس سے پونچھ کر شیشے کے ایک ڈبے میں ڈال دیتے ہیں جس کے بعد ان سراغ رساں کتوں کا کام شروع ہوتا ہے۔

 گولڈن ریٹریورز  اور  لیبرا ڈورز  نسل کے یہ کتے ایئر پورٹ پر کرونا کی تشخیص کے لیے حکام کے لیے کافی مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ نشان دہی ہونے پر متاثرہ شخص کو حکام علاج معالجے کی غرض سے ہسپتال یا قرنطینہ کے لیے لے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بابا وانگا کی 2021 کیلئے حیران کن پیشگوئیاں

کورونا متاثرین کو تلاش کرنے والے کتوں کو سبز رنگ کی جیکٹ پہنائی گئی ہے جس پر ریڈ کراس بنے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی جیکٹ پر جلی حروف میں  بائیو ڈیٹیکٹر  بھی لکھا ہوا ہے۔

کتا سونگھ کر اس بات کی شناخت کرتا ہے کہ آیا مذکورہ فرد کرونا وائرس سے متاثر ہے یا نہیں۔

کتوں میں فطری طور پر سونگھنے کی صلاحیت کسی بھی دوسرے جانور کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اسی خاصیت کی وجہ سے کتوں سے منشیات اور دھماکہ خیز مواد کی تلاش کا کام لیا جاتا ہے۔ کتوں کو ملیریا اور کینسر جیسی بیماریوں کا پتا لگانے کے لیے بھی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔

متحدہ عرب امارات اور فن لینڈ کے ایئر پورٹس پر بھی کورونا وائرس کے مریضوں کی تلاش کا کام کتوں سے لیا جا رہا ہے۔

حال ہی میں کیے گئے ایک مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تربیت یافتہ کتے 85 سے 100 فی صد درستگی کے ساتھ انفیکشن کا سراغ لگا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سردی میں کپڑے دھونے کا کیوں کہا؟ بیوی نے شوہر کو ہی ’دھو‘ ڈالا

چلی پولیس کے انسپکٹر جنرل ایستابن ڈیاز کا کہنا ہے کہ کتوں کی ان صلاحیتوں کی وجہ سے کرونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں ان سے مدد لی جا رہی ہے۔

چلی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں جون میں سب سے زیادہ تیزی دیکھی گئی تھی جس کے بعد معاملہ کچھ دن کے لیے تھم سا گیا تھا لیکن اب ایک مرتبہ پھر متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
 

Advertisement