چہرے پر ڈمپلز کیوں بنتے ہیں؟

Published On 09 April,2021 08:57 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) پلاسٹک سرجن انتھونی یان کے مطابق '' ڈمپلز والے عضلات میں فرق ہو سکتا ہے۔ لیکن انہیں انفیکشن یا کسی اور خرابی کی علامت ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر کوئی انہیں ختم کرنا چاہتا ہے تو علاج موجود ہے۔

پہلی صدی عیسوی میں مارکوس ویلرئیس مارشل (Marcus Valerius Martialis )ایک معروف رومن شاعر گزرا ہے۔ شہنشاہ ڈومیشن (Domitian)،نروا اور ٹراجن (Trajan) کے ادوار میں 86ء سے 103ء کے درمیانی عرصے میں شائع ہونے والی بارہ منظوم کتابیں وجہ شہرت ہیں۔

یہ پہلا شاعر ہے جس نے ڈمپلز کو بھی موضوع سخن بنایا ہے۔ بقول اس کے   جیلا سین سے عاری چہرہ بے رونق ہوتا ہے‘‘۔ اس کی شاعری میں چہرے کی اصل رونق ڈمپلز ہیں۔

شیکسپیئر کا ڈرامہ   دی ونٹرز ٹیلز‘‘(The Winter s Tale) خوبصورت ڈمپلز والے لڑکے کے ذکر سے خالی نہیں۔   گو ن ود دی ونڈ‘‘ (1936ء)میں ناول گار مارگریٹ مچلز نے ایک کردار کی خوبصورتی کے لئے ڈمپلز کا سہارا لیا ہے۔

براڈ پیٹ (Brad Pitt)، ایڈم لیوین (Adam Levine)اور بریڈ لے کوپر(Bradley Cooper) میں کیا چیز مشترک ہے؟.ڈمپلز۔ تینوں اداکاراوں کے گال پر پڑنے والے ڈمپلز ان کی مسکراہٹ کو حسن بخشتے ہیں۔

گلو کارہ اور ڈانسر شرل این کورل (Cheryl Ann) ، اداکارہ کیمرون ڈیاز (Cameron Diaz) . اور ڈچز آف کیمبرج کیٹ میڈلٹن کے چہرے کی خاص بات ڈمپلز ہیں۔ پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر کو   ڈمپل کوئین‘‘ کا خطاب بھی ملا ہے۔

مہوش حیات، صبا قمر، علیزے شاہ،عائزہ خان،مایا علی،اوشنا شاہ، عریج فاطمہ ، حنا الطاف،زرنش خان،ماہرہ خان، سائرہ خان اور سجل علی ڈمپلز ان سب کی خوبصورتی کا راز ہیں۔ کچھ مرد و خواتین ڈمپلز کو پسند کرتے ہیں۔ ان کے لئے ڈمپلز بنائے بھی جا سکتے ہیں، سائنس میں یہ صلاحیت موجود ہے۔

1962ء میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق    ڈمپلز گھر میں خوشی اور خوش قسمتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں ‘‘۔ ایشیائی ممالک میں ڈمپلز کو خوبصورتی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

چائنز اکیڈیمی آف میڈیکل سائنسز اینڈ پیکنگ اوریونین میڈیکل کالج بیجنگ نے بھی تحقیقات شائع کی ہیں۔ ماہرین نے بتایا کہ    کسی بھی سائنسی تشریح کے بغیر ڈمپلز والی خواتین بہت پر اعتماد ہو کر ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کو تیار رہتی ہیں کیونکہ وہ خود کو بلا وجہ دوسروں سے بہتر یا خوبصورت سمجھنے کے باعث زیادہ پر اعتماد ہو جاتی ہیں۔ اس کا تعلق سائنس سے نہیں بلکہ جذبات سے ہے‘‘۔

ڈمپلز 1980ء کی دہائی کے وسط میں زیادہ مقبول ہوئے جب گال اور تھوڑی کے ڈمپلز پر تحقیق سامنے آنے لگی اور چہرے کی خوبصورتی میں ڈمپلز کے چرچے ہوئے۔ 21ویں صدی میں یہ اصطلاح بہت عام ہو گئی۔

طبی جرائد اور تحقیق میں یہ لفظ عام استعمال ہونے لگا۔ اب یہ مردوں اور عورتوں میں مقبول ہیں۔   انفینٹی میڈیکل گروپ‘‘ کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں 20 فیصد آبادی کے چہرے پر ڈمپلز پڑتے ہیں اور یہ لوگ ڈمپلز کی وجہ سے خود کو زیادہ خوبصورت محسوس کرتے ہیں۔ اس کا تعلق کسی خاص رنگ ، نسل یا گروپ سے نہیں، یہ پاکستان اور ترکی سمیت بہت سے اسلامی ممالک میں بھی عام ہیں۔

مگر ڈمپلز کیا ہیں؟

جیلاسین (gelasin) اور ڈمپل الگ الگ لفظ ہیں لیکن ہم معنی ہیں۔ جیلاسین یونانی لفظ جیلائین (gelaein) سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں   قہقہہ‘‘۔ غیر ملکی جریدہ   جرنل آف سائنسز اینڈ ریسرچ ‘‘ نے ڈمپلز اور جیلا سین کو گال کے گوشت والے حصے میں پڑنے والی ہلکی سی گہرائی قرار دیا ہے۔

یہ   ڈمپل ‘‘کی سائنسی تشریح نہیں ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پلاسٹک سرجن برینٹ مولیکن (Brent Moelleken)نے جریدہ   سمتھ سونین میگزین‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ    ڈمپلز موروثی ہوتے ہیں، یہ دراصل گال کے پٹھوں کی  ابنارملٹی‘ کا نتیجہ ہیں۔ یہ جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہو سکتے ہیں‘‘۔

اس ابنارملٹی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ جن افراد کو ڈمپل پڑتے ہیں ان کے رخسار کی ہڈی کے نیچے کہیں کہیں پٹھے کی ساخت میں فرق ہونے کے باعث ان کے درمیان ڈمپلز پڑ جاتے ہیں۔

مسکراہٹ یا قہقہہ کی صورت میں یہ زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی آف یوٹاہ میں   جینیاتی سائنس لرننگ سنٹر‘‘ کے مطابق   ڈمپلز زیادہ تر موروثی ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ کچھ زیادہ ہی موروثی ہیں۔ ڈمپلز والے باپ اور ماں کے بچوں میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں تاہم چوتھے اور پانچویں بچے میں ڈمپلز کی وراثت محدود ہو جاتی ہے‘‘۔ 2017ء کی تحقیق کے مطابق   کچھ بچوں میں جینیاتی تبدیلیوں کے باعث ڈمپلز ختم بھی ہو سکتے ہیں‘‘۔

ڈمپلز چونکہ انتہائی آسانی کے ساتھ نئی نسل میں منتقل ہوسکتے ہیں تو انہیں بہت عام ہونا چاہئے ۔یہ بات سچ ہے۔ کیونکہ دیگر بیماریوں اور خرابیوں کے مقابلے میں ڈمپلز زیادہ عام ہیں۔تاہم ڈمپلز کی اناٹومی پر زیادہ تحقیق نہیں کی گئی۔

امریکہ میں زمانہ قدیم میں جیلا سین کو خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ چین سمیت کئی دوسرے ممالک میں بھی یہ روایت عام تھی۔ اسی لیے یہ کہا جانے لگا کہ ڈمپلز خوبصورتی سمیت ہر اچھی بات کی علامت ہیں۔

ڈمپلز کا چہرے پر پڑنا ضروری نہیں۔ کچھ لوگوں کی تھوڑی پر لکیریں سی نظر آتی ہیں۔ یہ بھی جینیاتی طور پر ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کے ماں اور باپ کی ٹھوڑی پر یہ لکیر بنتی ہو تو بچوں میں بھی امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ نچلے جبڑے کی بناوٹ میں کسی خرابی کی عکاس ہے۔ ہڈیوں کی نشوونما کے دوران نچلے جبڑے میں کچھ خرابی رہ جاتی ہے۔یہ اس کی علامت ہیں،پوری طرح آپس میں پیوست نہ ہونے کی وجہ سے وہاں ڈمپلز پڑ سکتے ہیں۔

تحریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال
 

Advertisement