لوک داستانوں کی جل پری کو معدوم ہونے سے بچانے کی کوشش

Published On 25 August,2025 08:38 am

ریاض: (ویب ڈیسک) سعودی عرب نے معدومی کے خطرے سے دوچار آبی جانور ڈوگونگ یعنی سمندری گائے کو بچانے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

ماضی میں تھکے ماندے ملاح جس مخلوق کو غلطی سے جل پری سمجھتے تھے، جسے آج سمندری گائے کہتے ہیں، وہ ایک شرمیلا، سست رفتار آبی جانور ڈوگونگ ہے جو معدومی کے خطرے سے دوچار بھی ہے، سمندری گائے کی قریب ترین رشتہ دار سٹیلر سمندری گائے تھی جو بے تحاشا شکار کیے جانے کی وجہ سے اٹھارویں صدی میں معدوم ہوگئی۔

ماحول کے تحفظ کے حامی خبردار کر رہے ہیں کہ سمندری گائے کے تحفظ کے لیے پختہ اقدامات نہ کیے گئے تو یہ جانور بھی دنیا سے ختم ہو جائے گا لیکن سعودی عرب میں اس گریز پسند جانور کے جُھنڈ خصوصی پناہ میں ہیں۔

بحیرۂ احمر اور خلیجِ عرب کے ساحلوں کے آس پاس سمندری گائے سکون کے ساتھ سمندری گھاس چرتی رہتی ہے جو اس جانور کا ایسا ٹھکانہ ہے جسے سعودی مملکت محفوظ رکھنے کے لیے بہت پُرعزم ہے۔

سمندری گائے کم گہرے پانیوں میں سمندری گھاس پر گزارہ کرتی ہے، لمبے جسم والی یہ گائے جس کے بازو ڈولفن جیسے ہیں اور دم چوڑی ہے لیکن اس کا سب سے حیران کن پہلو وہ تیز رفتاری ہے جس سے یہ تولیدی عمل سے گزرتا ہے۔

سعودی عرب ان چند ملکوں میں ہے جہاں سمندری گائے کے بچاؤ کی واضح کوششیں کی جا رہی ہیں، نیشنل سینٹر فار وائلڈ لائف نے سمندری گائے کی نقل و حرکت کو دیکھنے کے لیے سیٹیلائٹ کے ذریعے ٹریکنگ کر رکھی ہے اور اس کے بارے میں طویل مدتی سٹڈیز بھی کی گئی ہیں۔

سعودی مملکت کے ساحل سمندری گائے کی آخری پناہ گاہیں ہیں، بحیرۂ احمر میں ان کے لیے خوراک کے اہم ذرائع موجود ہیں جبکہ دنیا میں خلیج عرب میں آبی حیات کی سب سے زیادہ آبادی پائی جاتی ہے جس کا تخمینہ سات ہزار جانور ہیں۔

ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ موسمی نقل مکانی کے دوران خلیج کی چراہ گاہیں، جانوروں کو کتنا سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں، ان کی حفاظت کے خیال سے سعودی حکام نے سخت قوانین متعارف کرائے ہیں جن میں سمندری گائے کا شکار یا اسے نقصان پہنچانے پر ایک ملین سعودی ریال تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

سعودی عرب نے 2013 میں ابوظبی میں ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت سمندری گائے کے ٹھکانوں کو محفوظ کیا جانا تھا۔

اگر ماحول کے تحفط کے حامی کامیاب ہو گئے تو مستقبل کی نسلیں سمندری گائے کو سعودی پانیوں میں تیرتے دیکھ پائیں گی اور یہ موجودہ نسل کے لیے ایک یاد دہانی بھی ہے کہ کسی طرح جل پریوں کی داستانوں نے جنم لیا تھا اور کیسے خیال رکھنے کا انسانی جذبہ، فطرت اور فرضی حکایتوں کو آج بھی زندہ رکھ سکتا ہے۔