لاہور: (دنیا رپورٹ) مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں آٹھ سالہ کشمیری بچی آصفہ بانو کے لرزہ خیز قتل نے پورے بھارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ خانہ بدوش گجر برادری کی یہ بچی دس جنوری کو خچر چرانے جنگل میں گئی ، اس کے خچر واپس آگئے مگر وہ نہیں ، 12 جنوری کو اسکا والد پولیس کے پاس مقدمہ درج کرانے گیا تو اسے کہا گیا کہ اسکی بیٹی کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔ پانچ دن بعد بچی کی لاش مل گئی ۔ بچی کی ماں نسیمہ اور اس کے خاوند نے سب سے پہلے بھاگ کر جھاڑیوں میں لاش دیکھی تھی۔ اس پر تشدد کیا گیا تھا۔ اس کی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس کے ناخن کالے پڑ گئے تھے اور اس کے بازوؤں اور انگلیوں پر لال اور نیلے نشان تھے۔
تفتیش سے پتہ چلا کہ اس بچی کو کئی دن تک ایک مندر میں رکھا گیا تھا اور اسے بے ہوشی کی دوائیں دی جاتی رہی تھیں۔ کئی دنوں تک ریپ کیا گیا، آخر اسے قتل کر دیا گیا۔ پہلے اس کا گلا گھونٹا گیا پھر سر پر دو بار پتھر مارا گیا۔ 60 سالہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم سنجی رام نے چار سپاہیوں سریندر ورما، تلک راج، کھجوریا اور آنند دتا کے ساتھ مل کر اس جرم کی منصوبہ بندی کی۔ رام کا بیٹا وشال، اس کا کم عمر بھتیجا اور دوست پرویش کمار بھی ریپ اور قتل کے ملزم ٹھہرائے گئے۔ تفتیش کاروں کا الزام ہے کہ کھجوریا اور دوسرے پولیس اہلکاروں نے مقتولہ کے خون آلود کپڑے دھو کر فارینزک لیبارٹری کو بھیجے تھے تاکہ سراغ دھل جائیں۔ ان میں سے بعض بچی کو تلاش کرنے میں اس کے خاندان کی جھوٹ موٹ مدد بھی کرتے رہے تھے۔ اس جرم کا مقصد گجر برادری کو ڈرا کر جموں سے نکالنا تھا۔ گجر بچی کو اس قبرستان میں دفن کرنا چاہتے تھے جس کی زمین انھوں نے چند سال پہلے خریدی تھی اور وہاں پہلے ہی پانچ مردے دفنا چکے تھے ۔ لیکن جب وہ جنازہ لے کر وہاں پہنچے تو قبرستان کو کٹر ہندوؤں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور انھوں نے دھمکی دی کہ اگر بچی کو وہاں دفنانے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہو گا۔
دوسری طرف وحشیانہ جرم کے مرتکب درندوں کی حمایت میں ہندوؤں نے مظاہرے شروع کر دئیے اور وکیلوں نے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے پولیس کو عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو وزرا نے ملزموں کے حق میں جلوسوں میں شرکت کی۔ تاہم جب احتجاج کی چنگاری نے شعلوں کا روپ دھارا تو ان وزرا کو مستعفی ہو نا پڑا۔ واقعہ کے 65 روز بعد بھارت کے کونے کونے سے آوازیں آنے لگیں کانگریس صدر راہول گاندھی نے بی جے پی لیڈرشپ سے مخاطب ہو کر اپنے ٹویٹ میں لکھا پورا ملک آصفہ کے قتل سے ہل گیا ہے مگر آپ نہیں۔ سابق خارجہ سیکرٹری نروپامہ رائو نے تحریر کیا آصفہ کی معصوم آنکھیں مجھے پریشان کر رہی ہیں۔ ہم کہاں گر چکے ہیں ؟ شری روی شنکر نے تحریر کیا وہ انسان نہیں حیوان ہیں، پورے ملک کو آصفہ کیلئے کھڑا ہونا چاہیے۔ کرکٹر گوتم گمبھیر نے اپنے ٹویٹ میں کہا 8 سالہ بچی کی عصمت دری سے میرا سر شرم سے جھک گیا ہے اور اگر آصفہ کو جلد انصاف فراہم نہیں کیا گیا تو یہ ہمارے بھارتی ہونے پر سوال کھڑا کرے گا۔
ٹینس سٹار ثانیہ مرزا نے اپنے ٹویٹ میں سوالیہ انداز میں پوچھا کیا سچ میں ہم بھارت کو پوری دنیا میں اس نام سے پکارنے کے خواہاں ہیں، اگر ہم بغیر مذہب و ملت و جنس کے آٹھ سالہ بچی کیلئے کھڑے نہیں ہوں گے تب ہم اس دنیا میں رہنے کے لائق نہیں ہیں۔ اداکارہ سونالی بندرے نے کہا یہ ہمارے ملک کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ہم لڑکیوں کی حفاظت نہیں کر پا رہے ہیں فلم اداکار سنجے دت نے لکھا بطور سماج ہم ناکام ہو چکے ہیں بطور باپ میں ہل گیا ہوں کہ آٹھ سالہ بچی کے ساتھ کیا ہوا اور میں کوئی بھی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہوں، کسی بھی صورت میں آصفہ کو انصاف ملنا ہی چاہیے ۔ سونم کپور نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں نام نہاد قوم پرستوں اور ہندوئوں کے اس ہیبت ناک عمل سے شرمندہ ہوں اور خوف زدہ ہوں، مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے کہ کیا واقعی یہ سب کچھ بھارت جیسے دیش میں ہو رہا ہے ۔ مزید برآں بھارتی سپریم کورٹ نے پولیس کو ایک مقامی عدالت میں فرد جرم دائر کرنے سے روکنے کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا ہے اور از خود کیس کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ آصفہ کے والد کا کہنا ہے کہ اس نے یہ معاملہ اللہ کی عدالت میں پیش کردیا ہے۔