ابوجا:(ویب ڈیسک) نائیجیریا میں فوجی اڈے پر دہشت گردوں کے بہت بڑے حملے میں کم ازکم 100 سے زائد فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ ریاست بورنو کے شمال مشرق میں واقع ایک گاؤں میتیلی میں یہ حملہ ہوا ہے جو ایک عرصے سے شدت پسند تنظیم بوکو حرام کا مضبوط گڑھ بنا ہوا تھا تاہم اس واقعے کی ذمے داری ایک نئے گروپ نے قبول کی ہے۔
واضح رہے کہ 2015ء میں صدر محمد بوہاری کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے بعد یہ جانی نقصان کے لحاظ سے سب سے بڑا حملہ ہے۔ اس کے بعد سے نائیجیریا کی حکومت اور افواج کا مسلسل یہی مؤقف رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو کچل رہے ہیں اور ان کا انجام قریب ہے تاہم حالیہ چند ماہ میں نائیجیریا میں فوجی اڈوں پر جنگجوؤں کے حملوں میں دوبارہ اضافہ ہوگیا ہے۔یہ حملہ اتوار کی شب شروع ہوا تھا جس کے بعد اب پورا گاؤں دہشت گردوں کے قبضے میں ہے جہاں جانی نقصان میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔
ایک سپاہی نے کہا کہ ہم بھاگنے لگے کیونکہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ گولیاں کہاں سے آرہی ہیں، انہوں نے ہم میں سے کچھ لوگوں کو قتل کردیا ہم لاشوں کو اٹھانے گئے لیکن اپنے ہتھیار اور ٹینک بھی وہیں چھوڑ آئیں اور پورا گاؤں اب بھی ان کے قابو میں ہے‘ ۔
پیر کے روز جنگجوؤں نے اعلان کیا تھا کہ وہ 40 فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرچکے ہیں تاہم حملے میں بچ جانے والے ایک فوجی نے ایک اخبار سے کہا کہ ہمارے پاس مناسب کمک نہ تھی اور اس حملے میں 70 فوجی مارے گئے ہیں تاہم رائٹرز نیوز ایجنسی نے چار حوالوں سے کہا ہے کہ اس حملے میں 100 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نائیجیریا میں 9 سال قبل بوکو حرام نامی شدت پسند گروہ ابھرا تھا اور اس سے ایک نیا جنگجو گروہ نکلا ہے جس نے خود کو ’اسلامک اسٹیٹ ان ویسٹ افریقا‘ کا نام دیا ہے۔ اسی گروہ نے نائیجیریا حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔