نئی دہلی: (روزنامہ دنیا) بھارت میں میگھالیہ ہائیکورٹ کے جسٹس سدیپ رنجن سین نے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بھارت کی تقسیم کے وقت ہی اسے ایک ‘ہندو ریاست’ نہ بنائے جانے پر مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تقسیم کے وقت ہی ہندوستان کو ‘ہندو راشٹر’ قرار دے دیا جانا چاہیے تھا کیوں کہ پاکستان بھی تو اسلامی جمہوریہ بن گیا تھا۔
جسٹس سین رہائشی سرٹیفکیٹ سے انکار کر دئیے جانے پر امن رانا نام کے ایک شخص کی طرف سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کر رہے تھے۔ جسٹس سین کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت ایک اسلامی ملک بن سکتا ہے اور مودی حکومت کو ایسا قانون بنانا چاہیے، جو ایسا نہ ہونے دے۔
انہوں نے مودی حکومت کو مشورہ دیا کہ پاکستان، افغانستان، بنگلا دیش اور میانمار جیسے پڑوسی ممالک میں رہنے والے غیرمسلم فرقوں اور طبقات کو بھارت آ کر یہاں بسنے کی اجازت دی جائے تا کہ اس ملک کو ایک ‘اسلامی ریاست’ بننے سے بچایا جا سکے۔
فاضل جج نے اس حوالے سے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ، وزیر قانون، قانون سازوں، حکومت میگھالیہ اور حکومت مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی سے بھی موثر پیش رفت کی گزارش کی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے پورا اعتماد ہے کہ مودی حکومت معاملے کی سنگینی کو سمجھے گی اور ضروری قدم اٹھائے گی۔ شدت پسند ہندو تنظیمیں ملک کو ‘ہندو ریاست’ بنانے کے مطالبے کرتی رہتی ہیں تاہم بھارتی اعلیٰ عدلیہ کے کسی سینئر جج کی طرف سے پہلی مرتبہ اس طرح کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد ملک میں ایک زبردست تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
کئی جج عموماً کسی کیس سے الگ اور کچھ ہٹ کر بھی مفاد عامہ میں کچھ بیانات تو دیتے ہیں لیکن یہ بیانات اکثر مثبت پہلو ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم ایسا غالباً پہلی بار ہوا ہے کہ کسی جج نے بھارت کو ایک ‘ہندو ریاست’ بنانے کی باضابطہ اپیل کی ہے۔
معروف وکیل اور رکن پارلیمان ماجد میمن نے اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس سین کو ایسی باتیں نہیں کرنا چاہیے تھیں۔ مجھے ان کی باتوں پر بہت افسوس ہو رہا ہے کہ ایک جج کی ذہنیت کس طرح کی ہے، آئینی حلف اٹھانے والے جج کو تو اس بات پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ تقسیم کے وقت حالات کیا تھے، یہ بات معزز جج صاحب کو جاننا چاہیے۔ لگتا ہے انہوں نے تاریخ پڑھی ہی نہیں ہے۔
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی نے کہا کہ ایک جج کی طرف سے اس طرح کا بیان انتہائی افسوس ناک ہے، کسی جج سے اس طرح کے سیاسی خیالات کی توقع نہیں کی جاتی، یہ بہت سنگین مسئلہ ہے، مجھے امید ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس معاملے کا نوٹس لے گی، آزادی کے بعد ملک کے بانیوں نے کافی سوچ سمجھ کر اسے ایک سیکولر ملک قرار دیا تھا، جہاں دنیا کے تمام مذاہب کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے، یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے۔
ممبر پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بھی جسٹس سین کے حکم کو یکسر غلط قرار دیا اور کہا یہ کس طرح کا فیصلہ ہے؟ یہ نفرت پھیلانے کی کوشش ہے، کیا عدلیہ اور حکومت اس کا نوٹس لے گی؟ بھارت کوئی اسلامی ملک نہیں بنے گا۔ انڈیا ہمیشہ تکثیری اور سیکولر ملک ہی رہے گا۔
پارٹی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے جسٹس سین کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بیان سے پوری طرح متفق ہوں، کسی آئینی عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص نے ایک ایسا تبصرہ کیا ہے جو آج ملک کے بیشتر شہری محسوس کر رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کے احاطے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میگھالیہ ہائی کورٹ نے جو کچھ کہا ہے میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ہماری پارٹی ہمیشہ سے ہی کہتی آئی ہے کہ بھارت ایک ‘ہندو ریاست’ ہے۔ بھارت ‘ہندو راشٹر’ ہے اور اس کے لیے کسی عدالت یا کسی اور سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے، حکومت پر فائز بی جے پی کا بھی یہی ایجنڈا رہا ہے۔
جسٹس سین نے بہرحال اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ میں ہندوستان میں بسنے والے پرامن مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوں، میں اپنے ان مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے خلاف نہیں ہوں، جو ہندوستان میں کئی نسلوں سے آباد ہیں اور یہاں کے قانون پر عمل کرتے ہیں، انہیں یہاں امن سے رہنے دیا جانا چاہیے۔