لاہور: (روزنامہ دنیا) رومن کیتھولک چرچ کے روحانی پیشوا پاپائے روم پوپ فرانسس اور جامعہ الازہر قاہرہ کے شیخ ڈاکٹر احمد الطیب نے ابو ظہبی میں ایک مشترکہ تاریخی سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں جس میں انتہا پسندی سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس سمجھوتے کی تین نقول پر دستخط کئے گئے ہیں ایک نقل ویٹی کن، ایک الازہر اور ایک متحدہ عرب امارات کے لئے تھی۔
پوپ فرانسس 800 سال کے بعد جزیرہ نما عرب کا دورہ کرنے والے پہلے پاپائے روم ہیں۔ ان سے پہلے ان ہی کے ہم نام سینٹ فرانسس السیسی نے تیرھویں صدی میں مصر کے سلطان سے ملاقات کی تھی۔ پوپ فرانسس مذہبی پیشوائیت پر فائز ہونے کے بعد سے اسلام اور عیسائیت کو ایک دوسرے کے قریب تر لانے کے لئے کوشاں ہیں اور وہ اپنے پیغامات میں مذہبی رواداری، انصاف اور امن کے اصولوں پر زور دے رہے ہیں۔ ابو ظہبی کے تاریخی دورے کے موقع پر سوموار کو انسانی برادری کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا کسی بھی دین کے نام پر تشدد کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا اور اس کی کسی تردد کے بغیر مذمت کی جانی چاہیے۔ انسانی برادری کو جنگ کے ہر نعرے اور ہر لفظ کو مسترد کردینا چاہیے۔ انہوں نے کہا ہمیں یا تو مل جل کر مستقبل کی تعمیر کرنا ہوگی یا پھر ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہوگا اب وقت آگیا ہے کہ مذاہب زیادہ حوصلے اور دلیر ی کے ساتھ اپنا فعال کردار ادا کریں اور وہ کسی لاگ لپٹ کے بغیر انسانی خاندان کی مدد کریں، مصالحت، امید کے وژن اور امن کی ٹھوس راہوں کے لئے اس کی صلاحیت میں اضافہ کریں۔
پاپائے روم نے اپنی تقریر میں کہا انسانی برادری کو جنگ کے ہر نعرے کو مسترد کر دینا چاہیے۔ انسانی برادری ہم سے، دنیا کے مذاہب کے نمائندوں کی حیثیت سے یہ تقاضا کرتی ہے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لفظ جنگ کے کسی بھی معنی اور استعارے کو مسترد کر دیں میں بالخصوص یمن، شام، عراق اور لیبیا کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ انہوں نے ناصحانہ انداز میں کہا کہ ثقافت میں سرمایہ کاری سے نفرت میں کمی کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے اس سے تہذیب اور خوش حالی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ تعلیم اور تشدد ایک دوسرے کے باہم مخالف ہیں، کیتھولک سکولوں کو اس ملک اور خطے میں سراہا گیا ہے اور وہ تشدد سے بچاؤ کے لئے امن کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اس مذہبی اجتماع میں دنیا کے بائیس عقیدوں کے مذہبی قائدین سمیت سات سو سے زیادہ مندوبین شریک تھے۔ ان میں علماء، دانشور، محققین اور ماہرین تعلیم شامل تھے۔
لبنان سے تعلق رکھنے والے دانشور رضوان السیّد نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں علماء اور دانشوروں پر زور دیا کہ وہ مصالحت کی اس صلاحیت کو مزید وسعت دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک سو سال سے جاری ایک جنگِ عظیم ہار چکے ہیں اور یہ مغرب کا ہمارے بارے میں نقطہ نظر اور ہمارا مغرب کے بارے میں نقطہ نظر ہے۔ ہم یہ ثابت کرنے کے لیے جنگ آزما ہیں کہ ہم ان ہی کی طرح ہیں اور صرف تاریخ ہی نہیں بلکہ تہذیب میں بھی ان کے ساجھی ہیں۔ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے ہار گئے ہیں۔ اب دانش وروں اور سکالروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس پر کام کریں۔ رضوان السیّد نے پاپائے روم کے نقطہ نظر کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ متعدد کیتھولک، عرب اور مسلم ممالک نے پہلے ہی ویٹی کن کے ساتھ مل کر غربت، عالمی حدت اور بیماریوں کے خلاف جنگ کے منصوبوں پر کام شروع کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یورپی اسلام کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کرلیں گے یا وہ پوپ کے مؤقف اور سوچ کی وجہ سے مہاجرین کے بارے میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کرلیں گے لیکن مجھے یقین ہے کہ آئندہ برسوں کے دوران پوپ کے الفاظ یورپیوں پر ضرور اپنا اثر دکھا کررہیں گے۔
رومن کیتھولک چرچ کے روحانی پیشوا اتوار کو تین روزہ سرکاری دورے پر ابو ظہبی پہنچے تھے۔ ان کے اعزاز میں صدارتی محل میں پُروقار استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جہاں ان کا پُرجوش انداز میں خیر مقدم کیا گیا۔ پوپ یہ دورہ ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب متحدہ عرب امارات میں رواداری کا سال منایا جارہا ہے۔ پاپائے روم آج منگل کو ابو ظہبی میں واقع زید سپورٹس سٹی میں ہونے والے مذہبی اجتماع سے بھی خطاب کریں گے۔