لاہور: ( روزنامہ دنیا ) سوشل میڈیا اور ٹی وی اینکر باریکیوں کو کہاں سمجھتے ہیں۔ وہ شروع سے ہی جنگ کا بگل بجا رہے تھے اور انھیں اب بھی لگتا ہے کہ مسئلہ جو بھی ہو اور اس کا حل جو بھی ہو، ایک جنگ تو ہو ہی جانی چاہیے۔ انھیں فکر شاید صرف اس بات کی ہے کہ اسلحے کی بھی ایک شیلف لائف ہوتی ہے، زیادہ دن رکھا رہے تو بے کار ہو جاتا ہے اور دو غریب ملکوں میں وسائل کی بربادی کیسے برداشت کی جاسکتی ہے ؟ وقت رہتے استعمال ہو جائے تو اچھا ہے، رونق بھی رہے گی۔ لیکن اب لگتا ہے کہ ہندوستانی پائلٹ کی وطن واپسی کے ساتھ ہی فوکس کچھ بدل جائے گا۔
انتخابات سر پر ہیں اور سیاسی رہنما سوچیں گے کہ پہلے یہ کام ہی نمٹا لیں، جنگیں تو ستر سال سے لڑ ہی رہے ہیں، ایک مرتبہ شروع ہوگئی تو ختم ہونے میں نہ جانے کتنا وقت لگ جائے لیکن حالات یہاں تک پہنچے کیسے ؟ پلوامہ میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملے کے بعد انڈیا میں حکومت پر دباؤ تھا کہ وہ چالیس جوانوں کی ہلاکت کا انتقام لے۔ ان حالات میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ جوابی کارروائی کرنے کے لیے مسلح افواج کو مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے۔ یہ بات تقریباً طے تھی کہ اس مرتبہ سٹرائیکس کے لیے فضائیہ کا استعمال کیا جائے گا۔ فی الحال سوال کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن نریندر مودی کو اس بنیادی الزام کا سامنا ہے اور شاید جب انتخابی مہم باقاعدہ طور پر دوبارہ شروع ہوگی تو اور زیادہ شدت سے ہوگا کہ انھوں نے ایک مشکل الیکشن جیتنے کے لیے اس کارروائی کی اجازت دی تھی۔
حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کو سمجھانے کے باقی تمام دوسرے راستے آزمائے جا چکے ہیں۔ یہ قیاس آرائی ہی ہے لیکن حکومت اگر یہ کارروائی نہ کرتی تو نریندر مودی سے پھر ان کے سینے کا سائز ضرور پوچھا جاتا۔ لیکن فوجی ماہرین کی ایک بہت چھوٹی سی تعداد یہ معلوم کر رہی ہے کہ کیا حکومت نے یہ سوچا تھا کہ اگر بات بڑھ گئی تو کیا ہوگا ؟ کیا واقعی کسی کا یہ خیال تھا کہ سرحد پار سے جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی اور بات کو اسی طرح دبا دیا جائے گا جیسے ستمبر 2016 میں ہوا تھا ؟۔ ان سوالوں کا جواب آسانی سے نہیں ملے گا لیکن اگر بات اب ٹھنڈی ہونا شروع ہوگئی تو ایک دو ہفتے بعد تفصیلات سامنے آنا شروع ہوسکتی ہیں۔ تبھی معلوم ہوگا کہ آخر فضائی کارروائی کی اجازت دیتے وقت اس بارے میں کیا سوچا گیا تھا کہ جوہری اسلحے کے استعمال تک نوبت پہنچ سکتی ہے یا نہیں ؟۔
سوال یہ بھی ہے کہ اب تک جو ہوا ہے اس میں کون ہارا اور کون جیتا ؟ یا بازی برابر رہی ؟ کہتے ہیں کہ جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، سب ہارتے ہیں۔ جس دن بالاکوٹ پر بمباری کا اعلان کیا گیا اس دن بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ الیکشن میں اب نریندر مودی کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ (ان ہی کی پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ بالاکوٹ پر حملے سے کرناٹک میں بی جے پی 22 سیٹیں جیت جائے گی ) جب اس مختصر ٹکراؤ کا تفصیل سے تجزیہ ہوگا تو شاید یہ بات سامنے آئے کہ اس پائلٹ کی زندگی نے بہت سے لوگوں کو زندگی دی ہے۔ پائلٹ نہیں بچتا تو انتقام کا مطالبہ اور تیز ہو جاتا اور نریندر مودی کے لیے آپشنز محدود ہوتے چلے جاتے۔ پاکستان نے چاہے خیر سگالی کے جذبے کے طور پر پائلٹ کو واپس بھیجا ہو یا بین الاقوامی دباؤ میں ان کی واپسی کے اعلان کے بعد سے ہی یہ لگنا شروع ہوگیا تھا کہ اب بات ٹھنڈی ہو جائے گی۔