لاہور: (روزنامہ دنیا) بھارت کے الیکشن کمیشن نے واضح کر دیا ہے کہ ملک میں انتخابات اعلان شدہ پروگرام کے مطابق ہی ہوں گے اور ان میں کسی طرح کی ترمیم نہیں کی جائے گی۔ بھارت کے چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا نے آئندہ عام انتخابات کو 7 مرحلوں میں منعقد کرانے کے پروگرام کا اعلان 10 مارچ کو کیا تھا۔ یہ انتخابات 11 اپریل سے شروع ہو کر 23 مئی تک چلیں گے۔ اس دوران پانچویں، چھٹے اور ساتویں مرحلے کی پولنگ بالترتیب 6 مئی، 12 مئی اور 19 مئی کو ہوگی جب قمری اعتبار سے مسلمانوں کے لیے مقدس رمضان کا مہینہ چل رہا ہو گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے ایک بیان جاری کر کے کہا کہ رمضان کے پورے مہینے میں انتخاب نہ کرائے جائیں، ایسا نہیں ہوسکتا چونکہ 2 جون سے پہلے نئی حکومت تشکیل ہونا ہے لہٰذا یہ ضروری تھا کہ اس سے پہلے ملک میں انتخابات مکمل کرالیے جائیں۔ البتہ کمیشن نے اس بات کا پورا پورا خیال رکھا ہے کہ پولنگ کی تاریخیں کسی جمعہ کے دن یا تہوار کے موقع پر نہ پڑیں۔ بھارت میں ہر معاملے کو مذہبی رنگ دینا اور ہر فیصلے کو مذہب کے عینک سے دیکھنا عام بات ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ رجحان اور بھی زیادہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنا سارا حساب کتاب ہی سیاسی فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتی ہیں۔ اس لیے جیسے ہی عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوا، اسے بھی مذہب سے جوڑنے کی کوشش شروع ہوگئی۔ متعدد سیاسی جماعتوں اور بالخصوص مغربی بنگال میں حکمران ترنمول کانگریس اور دہلی میں حکمران عام آدمی پارٹی نے رمضان کے مہینے میں الیکشن کرانے پر سخت اعتراض کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رمضان میں پولنگ کی تاریخوں پر اعتراض کرنے والوں میں مسلم مذہبی رہنماؤں کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی تعداد زیادہ ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ‘‘حکومت نے اپنے فائدے کے لیے الیکشن کمیشن کے وقار اور عظمت کو داؤ پر لگا دیا۔ تین تین مرحلوں کی پولنگ کی تاریخیں رمضان میں رکھ دیں۔ ایک طرف تو آپ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آکر ووٹ ڈالنے اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں لیکن اگر رمضان میں الیکشن ہوتا ہے تو مجھے بتائیے کہ مئی کی سخت دھوپ میں کون مسلمان دن بھر قطار میں کھڑا رہے گا۔’’ مغربی بنگال کے وزیر فرہاد حکیم نے مودی حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا، ‘‘بی جے پی نہیں چاہتی کہ مسلمان اپنا ووٹ ڈالنے جائیں۔ خاص طور پر بہار، اترپردیش اور مغربی بنگال میں جہاں مسلمان ووٹروں کی اکثریت ہے ۔’’ سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما اور اترپردیش کے سابق صوبائی وزیر محمد اعظم خان نے سوال اٹھایا، ‘‘الیکشن کمیشن نے ماضی میں تہواروں کو مدنظر رکھا تھا لیکن اس مرتبہ ایسا کیوں نہیں ؟ اگر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا خیال رکھا جاتا ہے تو ہمارے تہوار کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ رمضان ہمارا سب سے بڑا تہوار ہے ۔’’ بہر حال حکومت کے علاوہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس اور کئی دیگر سیاسی جماعتوں اور مسلم علما اور دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ اس بحث کو غیر ضروری اور اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کی سازش قرار دے رہا ہے۔ بیشتر مسلم رہنماؤں اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ووٹ ڈالنا جمہوری اور قومی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ دینی فریضہ بھی ہے۔
کانگریس کے ترجمان اور سابق ممبر پارلیمان محمد افضل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ‘‘پہلے بھی رمضان میں انتخابات ہوئے ہیں لیکن اس پر کسی نے اس طرح کا اعتراض نہیں کیا جس طرح آج کیا جا رہا ہے، جو لوگ الیکشن کمیشن پر سوال اٹھا رہے ہیں وہ دراصل فرقہ پرستوں کی کہیں نہ کہیں مدد کر رہے ہیں کیوں کہ فرقہ پرست طاقتیں چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن کو مسلمانوں کے تنازعے سے جوڑ دیا جائے اور ووٹروں کی صف بندی کر دی جائے۔ ہمیں اس چال کو سمجھنا چاہئے۔ ’’ کانگریس ترجمان کا مزید کہنا تھا، ‘‘نہ تو رمضان ٹل سکتا ہے اور نہ ہی الیکشن ٹل سکتا ہے۔ دونوں بہت ضروری ہیں۔ مذہبی اعتبار سے ماہ رمضان میں کوئی بھی جائز کام کرنے پر پابندی نہیں ہے بلکہ اس کی اجازت ہے۔ الیکشن بھی ایک جائز اور ضروری کام ہے ۔’’ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور ممبر پارلیمان اسد الدین اویسی نے اس بحث کو غیر ضروری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ‘‘میرا تو اندازہ ہے کہ رمضان میں ووٹ کی شرح بڑھ جائے گی کیوں کہ مسلمان کھانے پینے کی جھنجھٹ سے بچے رہیں گے۔’’ فلمی نغمہ نگار جاوید اختر کے خیال میں اس طرح کی بحث ہی قابل نفرت ہے اور الیکشن کمیشن کو اس طرح کی کسی تجویز پر سرے سے غور کرنا ہی نہیں چاہیے۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اس تنازع پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا، ‘‘جو لوگ روزہ رکھتے ہیں انہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن سیاسی لیڈروں کو پریشانی ہو رہی ہے۔ پہلے بھی تہواروں کے دوران الیکشن ہوتے رہے ہیں اور گزشتہ برس ہی کیرانہ (اترپردیش) میں پارلیمان کا ضمنی انتخاب رمضان کے مہینے میں ہوا تھا، جس میں ہماری پارٹی بی جے پی کی شکست ہوگئی تھی۔’’ بی جے پی کے ترجمان اور سابق مرکزی وزیر سید شاہنواز حسین کی رائے میں یہ تنازع وہ لوگ پیدا کر رہے ہیں جو بھارت کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔