لاہور: (روزنامہ دنیا) کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں قتل عام کے واقعے کی جہاں ساری دنیا میں مذمت کی جا رہی ہے، وہیں بھارت کے بعض سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جشن منایا جا رہا ہے۔
اس بات کا اعتراف پاکستانی نژاد کینیڈا کے معروف فرد طارق فتح نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بھی کیا۔ انہوں نے لکھا کہ جس ظالمانہ انداز میں بعض بھارتی نیوزی لینڈ میں ہونے والے قتل عام کا جشن منا رہے ہیں وہ قابل نفرت ہے۔
روزی نام کی ایک صارف نے لکھا جو کچھ ہوا اس پر اسلامو فوبیا زدہ جاہل لوگ بہت زیادہ خوش ہیں۔ ذرا تو انسانیت کا مظاہرہ کریں۔ آپ کو شرم آنی چاہیے۔ وہ معصوم تھے۔ انتہا پسندوں کو عام مسلمانوں کا مترادف قرار دینا بند کریں۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔
اس حوالے سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں استاد اور ماہر عمرانیات ڈاکٹر تنویر فضل نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض حلقوں میں اس پر خوشی پائی جاتی ہے اور وہ اس کے اظہار سے گریز بھی نہیں کرتے۔ ہمارے بعض صحافی اور دانشور ایسے ہیں جو اس خیال کو ظاہر کرنے میں ذرا بھی گریز نہیں کرتے کہ دہشت گردی اور اسلام میں فرق نہیں کیا جانا چاہیے۔ جب یورپی ممالک یا کسی اور جگہ حملہ ہوتا ہے اور اس میں مسلمان شامل ہوتے ہیں تو اسے دہشت گردانہ حملہ کہا جاتا ہے لیکن جب حملہ آور کوئی دوسرے مذہب کا ہوتا ہے تو اسے مخبوط الحواس یا جنونی شخص کہا جاتا ہے۔
بھارت کے گھنشیام لودھی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ”نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ، سوچا خبر کر دوں کہ خوشی اکیلے نہیں سنبھلتی“۔ دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ بھارت میں ایسے لوگ ہیں جو اس بات سے خوش ہیں کہ دنیا میں ان کے ہم نوا افراد ہیں اور ان پر کوئی آنچ آئے بغیر وہ ان کا کام کر رہے ہیں۔
بھارت میں اسلامو فوبیا کا ماحول نہیں بننا چاہیے کیونکہ یہاں مسلمان ہزاروں سال سے آباد ہیں۔